جاپان میں من چاہی ملازمت: کچھ نہ کرنے کا بھی معاوضہ

موریموتو نے خبررساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ’بنیادی طور پر میں اپنے آپ کو کرایہ پر دیتا ہوں، میرا کام وہاں موجود ہونا ہے جہاں میرا گاہک چاہتا ہے اور بالخصوص ساتھ رہتے ہوئے کچھ نہ کرنا۔‘

شوجی موریموتو گاہکوں کے ساتھ ایک گھنٹہ محض وقت گزارنے اور کچھ نہ کرنے کے 71 ڈالر فی گھنٹہ لیتے ہیں (تصویر: روئٹرز)

شوجی موریموتو کے پاس وہ ہے جسے کچھ لوگ من چاہی ملازمت کہتے ہیں: انہیں تقریبا کچھ نہ کرنے کا بھی معاوضہ ملتا ہے۔

ٹوکیو کے 38 سالہ رہائشی یہ شخص اپنے گاہکوں کے ساتھ جانے کے لیے ایک گھنٹے کے 10 ہزار ین (71 ڈالر) وصول کرتے ہیں اور محض ان کے ساتھ ایک ساتھی طور پر موجود رہتے ہیں۔

موریموتو نے خبررساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ’بنیادی طور پر میں اپنے آپ کو کرایہ پر دیتا ہوں، میرا کام وہاں موجود ہونا ہے جہاں میرا گاہک چاہتا ہے اور بالخصوص ساتھ رہتے ہوئے کچھ نہ کرنا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے گذشتہ چار برسوں میں تقریبا چار ہزار اس طرح کے سیشنز کیے ہیں۔

موریموتو کے ٹوئٹر پر تقریباً دو لاکھ 50 ہزار فالوورز ہیں جہاں سے انہیں زیادہ تر گاہک ملتے ہیں۔

ان میں سے تقریبا ایک چوتھائی ایسے ہیں جو بار بار ان کے پاس آتے ہیں۔ ایک گاہک ایسا بھی ہے جس نے 270 بار انہیں کرائے پر لیا۔

ایک دفعہ ان کا کام انہیں ایک ایسے شخص کے ساتھ پارک میں لے گیا جہاں انہیں ان کے ساتھ صرف ’سی سا‘ (see-saw) پرکھیلنا تھا۔ ایک ایسا شخص بھی ان کا گاہک تھا جو صرف چاہتا تھا کہ ٹرین کی کھڑکی سے اسے دکھ کر الوداع کہا جائے۔

کچھ نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ موریموتو کچھ بھی کریں گے۔ انہوں نے فریج منتقل کرنے، کمبوڈیا جانے کی پیشکش مسترد کی ہے اور وہ جنسی نوعیت کا کوئی کام نہیں لیتے۔

موریموتو نے گذشتہ ہفتے ساڑھی میں ملبوس 27 سالہ ڈیٹا تجزیہ کار ارونا چدا کے ساتھ چائے اور کیک پر نشست کی۔ چدا انڈین لباس کو عوامی جگہ پر پہننا چاہتی تھیں لیکن پریشان تھیں کہ ایسا کرنے سے ان کے دوست شرمندہ ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بیٹھنے کے لیے موریموتو سے رابطہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’اپنے دوستوں کے ساتھ مجھے لگتا ہے کہ میرے لیے ضروری ہے کہ میں انہیں محظوظ کروں لیکن کرائے کے لڑکے (موریموتو) کے ساتھ مجھے گپ شپ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل موریموتو ایک اشاعتی کمپنی میں کام کرتے تھے اور اکثر ’کچھ نہ کرنے‘ کی وجہ سے انہیں ڈانٹا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا، ’میں نے سوچا کہ اگر میں گاہکوں کو کچھ نہ کرنے کی سروس فراہم کروں تو کیا ہو گا۔‘

دوسروں کے ساتھ وقت گزارنے کا کاروبار اب موریموتو کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے جس کے ساتھ وہ اپنی بیوی اور بچے کی کفالت کرتے ہیں۔

 اگرچہ انہوں نے اپنی آمدن بتانے سے انکار کیا لیکن بتایا کہ وہ روزانہ ایک یا دو لوگوں کو اپنی سروس دیتے ہیں۔ وبا سے پہلے یہ تعداد ایک دن میں تین یا چار تھی۔

جب انہوں نے بدھ کو ٹوکیو میں کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا تو موریموتو نے اپنی ملازمت کی عجیب و غریب نوعیت کی عکاسی کی اور ایک ایسے معاشرے پر سوال اٹھاتے نظر آئے جو پیداواری صلاحیت کو اہمیت دیتا ہے اور بے کار پن کا مذاق اڑاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’لوگ یہ سوچنے کے عادی ہیں کہ میرا ’کچھ نہ کرنا‘ قیمتی ہے کیونکہ یہ مفید ہے (دوسروں کے لیے)۔۔۔لیکن کچھ نہ کرنا واقعی  ٹھیک ہے۔ لوگوں کو کسی خاص طریقے سے مفید ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت