آلودہ پانی پی کر گزارا کرنے والے بھوکے بچے، امدادی کیمپوں میں علاج کی منتظر حاملہ خواتین اور زندگی بچانے والی ادویات سے محروم بزرگ شہری۔
یہ کچھ دل دہلا دینے والے مناظر ہیں جو پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد کی مدد کرنے والے رضاکاروں نے بیان کیے ہیں۔
دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے تباہی والے علاقوں میں مدد کے لیے سرگرم رضاکاروں نے کہا کہ اس قدر بڑے بحران سے دوچار ملک کو ملنے والی اب تک ملنے والی قدرے کم امداد ناکافی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق موسمیاتی بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والی تباہی کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور اس نقصان کا تخمینہ تقریباً 30 ارب ڈالر ہے۔
حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ افراد کی زندگیاں اس آفت سے متاثر ہوئی ہیں جس کا مطلب ہر سات میں سے ایک پاکستانی بحران کی زد میں ہے۔
ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ جاری ہے اور رواں ہفتے کے آغاز میں یہ 1300 کا ہندسہ عبور کر گئیں کیوں کہ تباہ کن بارشوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
زخمیوں کی تعداد 1500 سے بڑھ کر 12 ہزار 700 سے زیادہ ہو گئی اور تباہ شدہ یا تباہ ہونے والے گھروں کی تعداد 10 لاکھ سے 16 لاکھ تک پہنچ گئی۔
لیکن مربوط سرکاری ردعمل کے نہ ہونے کی وجہ سے انفرادی طور پر ہسپتال اور امدادی کیمپ قائم کرنے والے ڈاکٹرز اور مقامی تنظیموں کے مطابق حکومتی اعداد وشمار شاید ہی بحران کے پورے پیمانے کی عکاسی کرتے ہوں۔
بہت سے خاندانوں کے پاس سیلاب کے کھڑے پانی میں رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے جس سے سانپ کے ڈسنے کے واقعات میں اضافے سمیت پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی بھی پھیل رہی ہیں۔
پاکستان میں فلاحی ادارے ’واٹر ایڈ‘ کے کنٹری ڈائریکٹر عارف جبار خان نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا: ’پاکستان کو صحت کے بحران کی ایک اور لہر کا سامنا ہے کیونکہ لوگ بنیادی طور پر کھلے ذرائع سے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جس کے نتیجے میں اسہال، جلد اور دیگر بیماریوں کے ہزاروں کیسز سامنے آچکے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ملیریا کے کیسز اتنی تیزی سے پھیل رہے ہیں کہ ایک ضلعے میں صحت کے حکام نے کہا کہ ان کے پاس اس بیماری کا ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے، علاج تو دور کی بات ہے۔‘
دور دراز علاقوں میں خوراک اور طبی سامان تک رسائی تقریباً مکمل طور پر مسدود ہو گئی ہے جہاں پہلے ہی سہولیات کی کمی تھی۔ تقریباً تمام علاقوں میں طبی سہولیات کی کمی ہے جہاں 432 صحت کے مراکز تباہ اور 1028 کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔
ڈاکٹروں نے کہا کہ سیلاب سے تباہ شدہ یا بہہ جانے والے بیت الخلا کے ساتھ ساتھ ٹوٹے ہوئے اور غیر محفوظ پانی کے ذرائع نے لوگوں کو بیماریوں کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے چارسدہ میں قائم ایک عارضی ریلیف کیمپ میں مریضوں کی مدد کرنے والے ماہر امراض قلب محمد شکیل نے کہا: ’میں نے ڈائریا، ڈینگی، جلد کی بیماریوں اور آنکھوں کے انفیکشن کے اتنے زیادہ کیسز کبھی نہیں دیکھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت کی طرف سے عارضی ہسپتال اور امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں تاہم بہت سے علاقے اب بھی زیر آب ہونے کی وجہ سے لوگ سفر کرنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے وہ طبی مدد کے لیے انتظار کرنے پر مجبور ہیں۔
یہاں تک کہ وہ لوگ جو سرکاری پناہ گاہوں تک پہنچ پا رہے ہیں ضروری نہیں کہ انہیں طبی سامان اور علاج تک بروقت رسائی حاصل ہو سکے۔
ایک اور رضاکار ڈاکٹر طارق رشید نے کہا: ’خیموں میں درجنوں لوگ ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ اگر آپ ہر ایک مریض سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہر ایک کو چیک کرنے میں کافی وقت لگتا ہے۔‘
ڈاکٹر طارق نے مزید کہا: ’ہم دوائیوں کے پیکجز فراہم کرتے رہے ہیں لیکن طبی معائنہ کرنا بہت ضروری ہے اس سے پہلے کہ بیماریاں مزید پھیل جائیں۔‘
ڈاکٹر شکیل اور ڈاکٹر طارق ان متعدد لوگوں میں سے دو ہیں جو اپنے معمول کے کام کو روک کر پاکستان میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مصروف عمل ہیں لیکن انہوں نے رضاکارانہ اور امدادی سرگرمیوں کو مربوط کرنے میں دشواریوں پر مایوسی کا اظہار کیا۔
ایک مقامی پشتون رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن عابد منیر نے کہا کہ یہ کوششیں زیادہ تر غیر منظم ہیں اور اس افراتفری کے لیے جزوی طور پر حکومت ذمہ دار ہے۔
ان کے بقول: ’لوگ متاثرین کی مدد اور انہیں سہارا دینے کے لیے سامنے آ رہے ہیں لیکن کوئی نہیں جانتا کہ ہر کیمپ میں کتنی اور کس طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔
’بعض اوقات 10 افراد خوراک کی فراہمی کے لیے آ سکتے ہیں لیکن متاثریں کو ضرورت ایک مخصوص دوا کی ہو سکتی ہے۔‘
کیمپوں میں مدد فراہم کرنے والے رضاکاروں کا کہنا ہے کہ بچے، خواتین اور بوڑھے اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل نے کہا: ’بچوں میں مناسب قوت مدافعت پیدا نہیں ہوئی ہے اور وہ کئی دنوں تک پینے کے صاف پانی اور صحت بخش خوراک تک رسائی کے بغیر انتہائی مشکل حالات کا شکار ہیں۔ یہ واضح ہے کہ وہ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔‘
اب تک اس تباہی میں کم از کم 450 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔
رضاکاروں نے کہا کہ ریلیف کیمپوں کی صورت حال بھی تشویش ناک ہے کیونکہ لوگ تنگ حالات میں اپنے مویشیوں کے ساتھ چھوٹی جگہوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔
واٹر ایڈ پاکستان سے وابستہ سارہ اکمل نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’خواتین نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ کھلے میں عام رفع حاجت کرنے میں شرم محسوس کرتی ہیں کیونکہ وہ محسوس کرتی ہیں کہ ان کی پرائیویسی متاثر ہو رہی ہے اور وہ ایسا کرنے سے بچنے کے لیے کم کھانا کھا رہی ہیں۔‘
سارہ نے مزید کہا: ’اطلاعات ہیں کہ دوسری کئی خواتین اپنی ماہواری کے دوران سات دن تک ایک ہی کپڑے کا استعمال کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں انفیکشن اور پیٹ میں درد کی شکایات عام ہو گئی ہیں۔ یہ سب ان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر سنگین اثرات مرتب کر رہا ہے۔‘
خواتین کے لیے صورت حال خاص طور پر سنگین ہے جہاں کیمپ میں خواتین ڈاکٹرز اور دائیاں بہت کم ہیں۔
علاقے کی زیادہ تر خواتین کو اجنبیوں، خاص طور پر مردوں کے ساتھ رہنا تکلیف دہ لگتا ہے۔
اس قدامت پسند ملک میں بہت سی ایسی خواتین ہیں جو امدادی کیمپوں سے دور رہنا پسند کرتی ہیں اور اس وجہ سے وہ طبی سروس تک رسائی سے محروم رہتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں چھ لاکھ 50 ہزار حاملہ خواتین رہ رہی ہیں جن میں سے 73 ہزار کی آئندہ ماہ میں زچگی متوقع ہے۔
صورت حال ان لوگوں کے لیے مزید بھیانک ہے جنہیں ان پناہ گاہوں میں جگہ نہیں مل سکی اور انہیں سڑک کے کنارے خیمے لگانے پڑے۔ ان کے پاس امداد کا انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔
سیلاب سے متاثرہ افراد میں سے ایک روحان علی نے واٹر ایڈ کے ایک رضاکار کو بتایا: ’جب سیلاب آیا تو ہم رات کے دو بجے یہاں پہنچے۔ اب ہم یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہم بے بس ہیں اور یہاں خوراک کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔
’نہ سونے کے لیے ٹینٹ، نہ خیمہ، نہ کھانے کے لیے کچھ۔ ہمارے تمام گھر، ہمارے مویشی، ہماری گندم سب پانی میں ڈوب گئی۔‘
بہت سے لوگوں کو اپنا سامان بے آسرا چھوڑ کر سیلاب سے بھاگنا پڑا۔
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والی سمامہ محمد نے بتایا: ’سیلاب آدھی رات کو آیا۔ ہمارے پاس صرف خود کو بچانے کا وقت تھا۔ ہم خالی ہاتھ آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ ہمارے یہاں پاس کوئی مدد نہیں پہنچی۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جو بھی مدد ہمارے کے لیے آتی ہے راستے میں سڑک کے کنارے لوگ اسے ہتھیا لیتے ہیں۔‘
25 سالہ عبدالفہیم، جن کا گھر رات کو سیلاب میں ڈوب گیا، نے روئٹرز کو بتایا: ’امیروں کو بچانے کے لیے ہیلی کاپٹر دستیاب ہیں لیکن مجھے اپنے خاندان کو بچانے کے لیے دو ہزار روپے میں ایک کشتی کرائے پر لینی پڑی۔‘
امدادی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن سے وابستہ خالد وقاص کا کہنا ہے کہ جہاں مقامی این جی اوز خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں وہیں حکومت کو ریسکیو آپریشن کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہم جیسے ادارے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کریں لیکن حکومت کی طرف سے اب بھی زیادہ مدد کی ضرورت ہے۔‘
ڈاکٹر شکیل نے کہا کہ حکومت کو محض خوراک کی فراہمی تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے ایک جامع حل پیش کرنا چاہیے جس میں سیلاب زدگان کے ذہنی صدمے کو دور کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔‘
ان کے بقول: ’ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے راتوں رات اپنا سب کچھ کھو دیا، اپنی ساری محنت، وہ سب کچھ جو انہوں نے دہائیوں میں بنایا تھا۔
’کچھ دوسرے لوگوں نے قریبی خاندان کے افراد کو کھو دیا ہے، موت کو قریب سے دیکھا اور بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔
’آپ یہ توقع نہیں کر سکتے کہ آپ کا کام ہنگامی امدادی مواد کے کچھ پیکٹوں کی تقسیم سے ہو جائے گا۔‘
سماجی رضاکار حکومت سے مزید کام کا مطالبہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے۔
پاکستان کو حالیہ مہینوں میں گرتے ہوئے غیر ملکی ذخائر اور غیر معمولی مہنگائی کا سامنا ہے۔
ملک سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی معزولی کے بعد سیاسی بحران سے بھی گزر رہا ہے۔
اس سب کے دوران اسے پے در پے قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے جیسے ہیٹ ویوز، خشک سالی اور اب سیلاب۔ موسمیاتی بحران نے اس کے حالات کو مزید بدتر بنا دیا ہے جبکہ اس بحران میں پاکستان کا تقریباً کوئی کردار نہیں رہا۔
حکام نے کہا کہ پاکستان میں جو تباہی ہوئی ہے اس سے تعمیر نو میں کئی دہائیاں لگیں گی اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے زندگی دوبارہ کبھی پہلے جیسی نہیں ہو سکتی۔
واٹر ایڈ کے کنٹری ڈاریکٹر نے کہا: ’یہاں پہلے ہمیں شدید ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد براہ راست شدید سیلاب آیا ہے۔ یہ ماحولیاتی دھچکا ہے۔
’گذشتہ ایک ہفتے میں سیلاب صحت عامہ اور نقل مکانی کی ایمرجنسی کا باعث بن چکا ہے۔‘
’اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے سربراہی اجلاس کوپ 27 سے دو ماہ قبل ہی موسمیاتی تبدیلی کے اس تازہ ترین سانحے کو دنیا کے لیے ایک ویک اپ کال کے طور پر لینے کی ضرورت ہے۔
’پاکستان دنیا کی جانب سے موسمیاتی بحران سے نمٹنے میں ناکامی کا خمیازہ اٹھا رہا ہے۔ دنیا کو اب عملی قدم اٹھانا ہی پڑے گا۔‘
© The Independent