غیرمعمولی طور پر سر سے جڑی دو پاکستانی بچیاں لندن کے ایک ہسپتال میں 50 گھنٹے کے آپریشن کے بعد الگ کر دی گئیں۔
دو سالہ بہنیں صفا اور مروا اللہ لندن کے گریٹ آرمنڈ سٹریٹ ہسپتال (گوش) میں کیے جانے والے تین میجر آپریشنز کے بعد الگ کی گئی ہیں۔
پاکستان کے علاقے چارسدہ سے تعلق رکھنے والی ان بچیوں کا پہلا آپریشن اکتوبر 2018 میں کیا گیا تھا جب ان کی عمر 19 ماہ تھی۔
فروری میں ہونے والے آپریشن میں دونوں کو آخر کار الگ کر دیا گیا۔
بچیوں کی 34 سالہ ماں زینب بی بی، جو ان سے پہلے بھی سات بچوں کو جنم دے چکی ہیں، نے کہا:’ ہم ہسپتال اور اس کے عملے کے شکرگزار ہیں، انہوں نے ہمارے لیے جو کچھ کیا اس پر ہم ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گے۔ ہم مستقبل کے حوالے سے بہت پر جوش ہیں۔‘
بچیوں کے والد ان کی والدہ کے حمل کے دوران دل کے دورے سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دونوں بچیوں کو یکم جولائی کو ہسپتال سے چھٹی دی گئی تھی۔
دونوں بچیاں اور ان کی والدہ لندن میں ہی ان کے 57 سالہ دادا محمد سعادت حسین اور چچا محمد ادریس کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
یہ بچیاں پیدائش کے وقت سر سے جڑی ہوئی تھیں۔ ان کی کھوپڑیاں اور خون کی شریانیں ایک دوسرے سے پیوست تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گوش ہسپتال میں اس سے پہلے 2006 اور 2011 میں بھی سر جڑے بچوں کو الگ کیا جا چکا ہے۔
ماہرین کی جانب سے بچیوں کی کھوپڑیوں کی ساخت جانچنے اور شریانوں کی درست صورتحال جاننے کے لیے ٹھیک اسی انداز میں ورچوئل رئیلٹی تخلیق کی گئی۔ ایک ٹیم نے تھری ڈی پرنٹنگ کے استعمال سے پلاسٹک کے ماڈلز بھی تیار کیے تاکہ ان کو شریانوں کو الگ کرنے کی تربیت کے دوران استعمال کیا جا سکے۔
سرجری کے دوران پہلے ڈاکٹروں نے دونوں بہنوں کی خون کی شریانوں کو الگ کیا جس کے بعد ان کے دماغ اورشریانوں کو الگ رکھنے کے لیے ان کے سر میں پلاسٹک کا ایک ٹکڑا ڈالا گیا۔
حتمی آپریشن میں ڈاکٹروں نے بچیوں کی ہڈی کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعی طور پر کھوپڑیاں تیار کیں۔
اس سرجری کے اخراجات پاکستانی کاروباری شخصیت مرتضیٰ لاکھانی نے ادا کیے ہیں۔
سرجری کے دوران کئی طریقوں کو استعمال میں لا کر اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ دونوں بچیاں آزادانہ طور پر اپنی زندگی گزار سکیں۔
یہ آپریشن 50 گھنٹے طویل تھا جبکہ اس میں گوش ہسپتال کے عملے کے 100 ارکان نے حصہ لیا۔ نیوروسرجن نور الاویس جیلانی اور کرینیوفیشل یونٹ کے سربراہ پروفیسر ڈناوے آپریشن کرنے والی ٹیم کے سربراہ تھے۔
دونوں کا کہنا تھا کہ: ’ہمیں خوشی ہے کہ ہم صفا اور مروا اور ان کے خاندان کی مدد کرسکے۔ یہ ڈاکٹروں کی ٹیم اور ان کے خاندان دونوں کے لیے ایک طویل اور پیچیدہ سفر تھا۔ یہ ان کا یقین ہی تھا جو انہیں اتنی مشکلات میں کام آیا ہے۔ ہم ان پر فخر کرتے ہیں۔ ہمیں گوش ہسپتال کی ٹیم پر بھی فخر ہے جو گذشتہ دس ماہ سے ان کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا خیال رکھ رہی تھی۔‘
سرجڑے جڑواں بچے شاذونادر ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ہر 25 لاکھ بچوں میں سرجڑے بچوں کی تعداد صرف ایک ہوتی ہے۔
اس رپورٹ میں پریس ایسوسی ایشن کی معاونت بھی شامل ہے۔
© The Independent