اس ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں تقریباً ہر چیز کی جگہ سمارٹ فونز نے لے لی ہے۔ اس سب میں لائبریریاں بھی شامل ہیں جنہیں اب ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ہی دوبارہ بحال کیا جا رہا ہے۔
مگر عمر کوٹ کے چند نوجوانوں نے لائبریریوں کو ایک بار پھر سے فعال کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
سندھ کے ضلع عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھرت کمار 2020 سے عمر کوٹ کی شہید عبدالرحیم گرھوڑی لائبریری کے لیے سوشل میڈیا پر مہم چلا کر کتابیں جمع کر رہے ہیں۔
بھرت کمار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنے کچھ ہم خیال نوجوان دوستوں کے ساتھ مل کر ایک سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا جس کے ذریعے انہوں نے اب تک پانچ ہزار سے زائد کتابیں جمع کر کے لائبریری میں جمع کروا دی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب شہید عبدالرحیم گرھوڑی لائبریری کا قیام ہوا تو یہاں پر کتابیں نہ ہونے کے برابر تھیں، پھر ان کو یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے اس ادارے کی مدد کی جائے اور اس لائبریری کے لیے کتابیں جمع کی جائیں۔
اور تب انہوں نے کتابیں جمع کرنے کی ایک سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا۔
بھرت کمار بتاتے ہیں کہ سندھ کے دیگر شہروں میں لائبریریاں تھیں لیکن عمر کوٹ میں ایسی کوئی لائبریری نہیں تھی۔ یہ لائبریری عمرکوٹ کے نوجوانوں کی اپیل پر حکومت نے بنائی ہے۔
بھرت کمار نے اس مہم کے حوالے سے بتایا کہ اس کا آغاز انہوں نے عمرکوٹ سے کیا لیکن سندھ کے دیگر شہروں کراچی، سکھر، سانگھڑ، کھپرو، کنری، سمارو، پتھورو اور تھرپارکر کے ضلع کے شہروں سمیت کئی شہروں سے لوگوں نے کتابیں بھیجیں اور پھر کتابیں جو بھیجتا تھا اس کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ سوشل میڈیا پر ان کا شکریہ ادا کرتے تھے۔
’سوشل میڈیا پوسٹ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس مہم کا حصہ بنتے اور کتابیں عطیہ کرتے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان جمع کردہ کتابوں میں ادبی لٹریچر سمیت دیگر نصابی کتابیں شامل ہیں جس سے کئی طالب علم جو دیگر شہروں سے عمر کوٹ میں تعلیم کے حصول کے لیے کالجوں میں پڑھتے ہیں وہ اپنی کلاسز کے بعد لائبریری میں آکر ان کتابوں سے مستفید ہوتے ہیں۔
بھرت کمار کا کہنا ہے کہ اس مہم کو شروع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایسی کتابیں یا کورسز جیسے کے سینٹرل سپیریئر سروس (سی ایس ایس) اور پبلک سروس کمیشن (پی سی ایس) جیسے امتحانات کی تیاری کے لیے غریب طلبہ خرید نہیں سکتے ہیں تو وہ اس لائبریری سے مفت میں لے کر پڑھ سکتیں ہیں۔
’ہمارے معاشرے میں جہاں دیگر چیزیں عطیہ کی جاتی ہیں وہیں ہمارے یہاں کتابیں بھی عطیہ کرنے کا رجحان پیدا کرنا بھی ہمارا مقصد تھا۔‘
بھرت نے مزید بتایا کہ شروع شروع میں پانچ سو کتابیں جمع کرنے میں کافی مشکلات ہوئیں لیکن پھر لوگوں نے کتابیں دینا شروع کیا تو پتا بھی نہ چلا کہ پانچ سو سے پانچ ہزار کتابیں جمع ہوگئیں۔
انہوں نوجوان کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ طالب علم اور نوجوان اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنے سکولوں میں لائبریریوں کا قیام کریں اور اس کے لیے کتابیں جمع کریں جس سے آنے والی نسل مستفید ہو سکے۔