عہد نظام کی عالی شان یادگار مکتبہ آصفیہ میں، جس کا نام اب سٹیٹ سینٹرل لائبریری حیدر آباد ہے، ایک پوری منزل صرف اخبارات کے لیے مخصوص ہے۔ جہاں تقریباً نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے لاکھوں اخبارات رکھے گئے ہیں۔
یہاں عام داخلے پر پابندی ہے مگر اخبارات کا جو حشر ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جیسے یہاں اخبارات برسوں سے لوہے کے ریکوں اور فرش پر پڑے پڑے فنا ہونے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
اس منزل کی تمام راہداریوں پر بڑے بڑے ریک لگے ہیں جس میں قدیم اخبارات رکھے ہیں جن میں زیادہ تر ناقابل استعمال ہیں۔
کچھ اس حد تک بوسیدہ ہوچکے ہیں کہ وہ خفیف لمس سے ہی ریت کے ڈھیر میں بدل جاتے ہیں۔
معاون لائبریرین کیسری ہنومان کے مطابق لائبریری 72,247 سکوائر یارڈ پر محیط ہے جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ کتابیں اور مجلات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں استعمال شدہ اخبارات ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اخبارات کے لیے بالائی منزل کا پورا حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے اور اسے عوامی داخلے کے لیے بند کر دیا گیا ہے تاکہ اخبارات کو مزید کوئی نقصان نہ پہنچے۔
کیسری ہنومان بتاتے ہیں کہ اخبارات اب اتنے بوسیدہ ہوچکے ہیں کہ اسے محفوظ نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کچھ سالوں سے قدیم اور نایاب اخبارات کو سکین کر کے ڈیجیٹل ریکارڈ میں محفوظ کیا جا رہا ہے۔
’اس کے تحت سینکڑوں قدیم اخبارات کو ڈیجٹلائز کیا گیا، جس میں استعمال کردہ باہر کی ریاستوں سے شائع ہونے والے اخبارات شامل ہیں۔‘
کیسری ہنومان کے مطابق لاہور سے شائع ہونے والے کچھ پرچے ابھی تک محفوظ ہیں۔ پاکستان (غیرمنقسم ) سے شائع ہونے والے پرچے اس وقت کے نظام منگواتے تھے اور پڑھتے تھے۔
مشہور مصنف نصیر الدین ہاشمی کے مطابق کتب خانہ آصفیہ کو پہلے پہل نواب عماد الملک مولوی سید حسین بلگرامی اور ملا عبدالقیوم نے متحدہ طور پر 1891 میں قائم کیا تھا۔ حکومت آصفیہ کی مدد سے اس کی توسیع ہوئی اور پھر عوامی کتب خانہ قرار دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتے ہیں کہ اس کتب خانہ کا مقصد اہل علم، محقیقین، ریسرچ سکالر اور عوام و خواص کے لیے علمی استفادے کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ اس لیے ابتدا سے ہی یہاں عربی، فارسی، اردو اور سنسکرت قلمی اور مطبوعہ کتابیں خریدی جانے لگیں۔
’1940 سے قلم رو آصفیہ کی تینوں قومی زبانوں تیلگو، مراٹھی اور کنڑ کے ساتھ ہندی کی کتابیں بھی جمع کرنے کا آغاز ہوا۔ اسی عہد سے تمام زبانوں کے اخبارات بھی خریدے جانے لگے۔‘
اس کتب خانہ کی شروعات عابد روڈ سے ہوئی جس میں آج کل پوسٹ آفس ہے تاہم آخری نظام نواب میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع نے موسی ندی کے کنارے کتب خانہ کے لیے ایک دلکش عالی شان عمارت تعمیر کی اور 1936 میں کتب خانہ جدید عمارت میں منتقل ہوا۔ یہ موسی ندی اب نالا بن چکا ہے۔
سقوط حیدر آباد کے بعد سال 1955 میں اس کا نام مکتبہ آصفیہ سے بدل کر سٹیٹ سینٹرل لائبریری رکھ دیا گیا۔
معاون لائبریرین کیسری ہنومان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نظام راجا کی تعمیر کردہ اس عمارت میں عربی اور اردو کی ہزاروں نادر و نایاب کتابیں ہیں جو اب خود عرب ممالک میں بھی موجود نہیں ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس لائبریری کی در و دیوار سے ایک خاص طرح کی فضا بنتی ہے جس سے یہاں کچھ بھی مطالعہ کرنے میں بڑی طمانینت محسوس ہوتی ہے۔