اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا نے دنیا کا سٹیٹس اپ ڈیٹ کردیا ہے۔ اس سے رابطوں میں اضافہ اور معلومات کی تیز ترین ترسیل کے ساتھ ساتھ علم کے حصول اور ای کامرس میں انقلاب آ گیا ہے، جو انتہائی مثبت تبدیلی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں اس کا سکہ چل رہا ہے لیکن سوشل میڈیا کے سکے کا دوسرا رخ کیا ہے؟
صارفین کی اکثریت اس سے ناواقف محسوس ہوتی ہے کہ انفارمیشن کے بدلے ایک عام صارف کیسے استعمال ہو رہا ہے اور کس طرح اس کے احساسات، عادات اور رویوں کو کمرشل مقاصد کے لیے کنٹرول کیا جا رہا ہے، اور مصنوعی ذہانت کا الگورتھم کیسے کام کرتا ہے۔
سوشل میڈیا کا سارا کھیل پیغام اور انعام کے گرد گھومتا ہے۔ پیغام وہ نوٹیفیکیشن ہے جو آپ کو موصول ہوتی ہے اور انعام وہ جو آپ کو نہیں بلکہ انہیں ملتا ہے جو آپ کے ذریعے کماتے ہیں۔ تفصیل کے لیے روز مرہ کی مثال سمجھیے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ فون پر کسی بھی سوشل ایپ کی طرف سے جیسے ہی نوٹیفیکیشن کی گھنٹی بجتی ہے تو اہم ترین کام چھوڑ کر پہلے نوٹیفیکیشن دیکھنے کا ہی تجسس ہوتا ہے؟ مجھے کس نے کیا پیغام بھیجا؟ کیا مجھے کوئی ٹیگ کر رہا ہے؟ میرے سٹیٹس کو کتنے لائیکس اور کمینٹس ملے؟ کوئی نئی ای میل آئی؟ گوگل یا یوٹیوب کون سی ویڈیو دیکھنے کو تجویز کر رہا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
لیکن جیسے ہی آپ نوٹیفیکیشن پر کلک کرتے ہیں تو اکثر اوقات یہ پیغام دیکھنا آپ کے لیے ضروری ہی نہیں ہوتا۔ مگر یہ آپ کو موبائل کی سکرین سے ضرور جوڑ دیتا ہے۔ یہی تو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس چاہتی ہیں کہ آپ سکرین پر سکرول کرتے جائیں اور ڈیجیٹل دلدل میں دھنستے جائیں۔ جتنا وقت آپ سکرین کو دیں گے ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اتنا ہی منافع کمانے کا موقع دیں گے کیونکہ سوشل نیٹ ورکس اصل میں وہ جال ہیں جن کا کام ہی صارفین کو نوٹیفیکیشنز کا دانہ ڈال کر پھنسانا ہے۔
اگر یہ نوٹیفیکیشن دیکھنے کے بعد آپ کی انگلی موبائل کی سکرین پر سکرول ڈاون کرنا شروع کردے تو سمجھ لیں کہ آپ کو ڈیجیٹل جال میں پھنسایا جا رہا ہے۔ آپ کو نہ صرف سوشل میڈیا کی لت لگ چکی ہے بلکہ آپ کی نفسیات کو اسی مشینی الگورتھم نے کنٹرو ل کرلیا ہے اور آپ کو اشتہاری کمپنیوں کے آگے بیچا جا رہا ہے۔
آپ جتنا سکرول ڈاؤن کریں گے اتنا ہی ڈیٹا بنے گا اور مشین لرننگ کے پیچیدہ فنکشن کے تحت بڑی بڑی ٹیک کمپنیاں آپ کو آپ کی پسند کے مطابق مواد تجویز کریں گی تاکہ اسی طرح کی پراڈکٹ آپ کو اشتہار دکھا کر بیچی جا سکیں جو آپ کچھ سیکنڈز تک سکپ بھی نہیں کرسکتے۔
ایک مشہور قول ہے کہ اگر آپ کوئی پراڈکٹ فری میں استعمال کر رہے ہیں تو اصل میں آپ خود ہی پراڈکٹ ہیں۔ ٹیکنالوجی کمپنوں کا اصل بزنس ہی اپنے صارفین کو پراڈکٹ کی طرح ایڈورٹائیزرز کو بیچنا ہے کیونکہ ان کے کسٹمرز صارفین نہیں بلکہ ایڈورٹائیزرز ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے کمرشل مقاصد اتنے بھیانک ہیں کہ ٹین ایج صارفین ڈپریشن سے لے کر خودکشی تک کر گزرتے ہیں۔
امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق 2009 سے 2015 تک 10 سے 14 سال کی بچیوں میں ڈپریشن 189 فیصد بڑھا اور خودکشی کرنے کے تناسب میں 151 فیصد اضافہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2009 ہی وہ سال تھا جب سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایپس کی صورت میں فونوں میں آنا شروع ہوگئے۔ پب میڈ اور سائنس ڈائریکٹ سے منسلک جریدوں میں شائع ہونے والی درجنوں تحقیقی مقالوں سے بھی یہ واضح ہو چکا ہے کہ سوشل میڈیا کے بے جا استعمال سے نوجوانوں میں نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں، جس کی ایک وجہ حقیقی اور ورچوئل دنیا کا فرق ہے۔
مس انفارمشن، ڈس انفارمیشن اور فیک نیوز یا جعلی خبریں کچی عمر کے نوجوانوں کو کافی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ نوجوانوں کو براہ راست موبائل پر چپکانے کا کردار نوٹیفیکیشنز ادا کرتے ہیں پھر کلک کے راستوں سے ہوتے ہوئے صارفین اس جال تک پہنچ جاتے ہیں جہاں ٹیک کمپنیاں لے جانا چاہتی ہیں۔ پھر صارفین اپنے گھر میں ہوں یا دوستوں میں، جسمانی طور پر موجود ہونے کے باوجود ان سے کٹ جاتے ہیں، لیکن ڈیجیٹلی جڑے رہتے ہیں اور یوں سوشل ہوتے ہوئے بھی سوشل میڈیا سوشل نہیں رہنے دیتا۔
موبائل آپ کے کنٹرول میں تو ہے لیکن اصل میں آپ غیر ارادی طور پر اس کے کنٹرول میں آجاتے ہیں کیونکہ تمام ٹیک کمپنیوں کا بزنس ماڈل ہی صارفین کو کنٹرول کرنے کے گرد گھومتا ہے یعنی کسی بھی طرح اپنے صارفین کر سکرین سے جوڑے رکھنا۔
نیٹ فلیکس پر ستاویزی فلم ’سوشل ڈیلیما‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں فیس بک اور پن ٹرسٹ میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے ٹم کینڈل کا کہنا ہے ٹیک کمپنیاں یہ دیکھتی ہیں کہ آپ ان کے پلیٹ فارم پر کتنا وقت گزارتے ہیں، آپ کون ہیں، کیا کرتے ہیں، کیا پسند کرتے ہیں، آپ کے دوست کون کون سے ہیں۔ یہ تمام ڈیٹا آپ یا اپنی پروفائل بناتے وقت یا تو خود براہ راست فراہم کرتے ہیں یا اپنے سوشل میڈیا انگیجمنٹ رویوں، یعنی لائیکس، کمینٹ، سرچ اور دیکھی گئی ویڈیوز، کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے سسٹم میں اپنا ڈیٹا خود ڈال رہے ہوتے ہیں وہ بھی نہ چاہتے ہوئے۔
ٹم کینڈل کہتے ہیں وہ بذات خود بھی سب جاننے کے باوجود موبائل سے پیچھا نہیں چھڑا پاتے۔ یہ کمپنیاں ایک صارف کو اُس سے بھی بہتر جانتی ہیں کہ وہ کون ہے اور کیا چاہتا ہے؟ اور یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ کمپنیاں صارفین کے ڈیٹا ہی کی بنیاد پر انسانی تاریخ میں سب سے امیر ترین کمپنیاں بن چکی ہیں جن کی کمائی کھربوں ڈالرز میں ہے۔
آپ آن لائن جو بھی کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں، اصل میں آپ کو دیکھا جا رہا ہوتا ہے، ٹریک کیا جا رہا ہوتا ہے اور ریکارڈ کیا جا رہا ہوتا ہے۔ اگر آپ نے ایک تصویر دیکھی اور کتنی دیر تک دیکھی اس کا بھی حساب رکھا جا رہا ہے اور حساب رکھنے کی نگرانی انسانی نہیں بلکہ ربوٹک ہے۔ مشین لرننگ کے میکنزم کے تحت اس نظام میں دن بدن بہتری بھی لائی جا رہی ہے، ایسے ماڈلز بنائے گئے ہیں جو صارفین کے ایکشن کی پیش گوئی کرتے ہیں اور یہ پیش گوئی ایک صارف کے ماضی میں کیے گئے کلکس کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ نے کسی یونیوسٹی میں ایڈمیشن لینے کے لیے کلک کیا یا معلومات میں دلچسپی ظاہر کی تو اسی ڈیٹا کی بنیاد پر یہ ماڈل آپ کی پروفائل پر اسی طرح کے نوٹیفیکیشنز بھیجے گا۔ مثلاً آپ کو دو یا تین دن بعد کسی بھی ایپ یا سرچ انجن سے تجویز کردہ یونیورسٹی میں ایڈمیشن کا نوٹیفیکیشن آسکتا ہے۔ اگر آپ اسے کلک کرلیتے ہیں تو الگوتھم سمجھے گا کہ آپ اس کی ٹارگٹڈ پراڈکٹ ہیں اور یوں آپ کو تعلیم سے متعلق اشتہار دکھائے جائیں گے۔ لیکن اگر آپ مصنوعی ذہانت کے ذریعے بھیجے گئے تجویز کردہ لنکس پر کلک نہیں کرتے تو کسی اور ذریعے سے آپ کی دلچسی چیک کی جائے گی اور اس وقت تک آپ کو انگیج رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔
آپ کی شخصیت، جذبات اور لوکیشن کے سہارے بھی ڈیجیٹل گھیرا ڈالا جائے گا۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ جو مواد آپ زیادہ دیکھتے ہیں، اسی کی تجاویز آ رہی ہوتی ہیں اور آپ کلک کرکے ایک ڈیجیٹل مزدور کی طرح ان کے لیے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ انٹرنیٹ کمپنیاں آپ ہی کے ذریعے آپ کے دوستوں کو دعوت دینے کی تجاویز دے کر نیٹ ورک بڑھاتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ڈیٹا جمع ہو اور زیادہ سے زیادہ صارفین کو اشتہار بیچے جا سکیں۔آپ کو نوٹیفیکیشنز بھیجی جائیں گی مثلاً فلاں نے فیس بک جوائن کیا اس کو ہائے کہیں؟ آپ کی کانٹیکٹ لسٹ میں فلاں فلاں بھی انسٹا پر ہے، انہیں فالو کریں، فلاں نے آپ کو ٹیگ کیا ہے، فلاں نے نئی پوسٹ کی ہے ذرا چیک تو کریں، آج فلاں کی برتھ ڈے ہے اسے وش کریں ؟ آپ نے اتنے نوٹیفیکیشنز مس کیے ہیں کلک کرکے دیکھیں، وغیرہ، وغیرہ۔
اگر آپ نے ایسے پیغامات پر دھیان دے دیا تو آپ کا دھیان اصلی کام سے تو ہٹے گا ہی بلکہ آپ خود غیر ارادی طور پر ان کمپنیوں کے لیے کام کرنا شروع کر دیں گے، آپ کے امپریشن ریکارڈ ہوتے جائیں گے حتیٰ کہ جب آپ موبائل چھوڑیں گے تو آپ کو ایک پراڈکٹ کے طور پر چند ڈالرز میں بیچا جا چکا ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صارفین کو بیچنے کے طریقے کافی پیچیدہ، بے حس، ربوٹک اور غیر انسانی ہیں۔ ٹیک کمپنیاں بڑے پیمانے پر ایجنڈا سیٹنگ کر رہی ہیں۔ کیا دکھانا ہے اور کیسے دکھانا ہے، یہ کمپنیاں صارفین کو مینوپولیٹ کرتی ہیں۔ نوٹیفیکیشن کا آنا اور اسے چیک کرنا انسانی فطرت اور کمزوری ہے اور اسی تجسس کو اس انداز سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سب کررہا ہوتا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیے۔
ایک استاد ہونے کی حیثیت سے میں نے ذاتی طور پر نوٹ کیا ہے کہ اکثر طلبہ کلاس روم میں لیکچر سے توجہ ہٹا کر صرف اس لیے موبائل سکرین دیکھتے ہیں کیونکہ ان کو نوٹیفیکیشن کی گھنٹی مجبور کرتی ہے۔ یہ ان کی توجہ پڑھائی سے بھی دور لے جاتی ہے اور اصل زندگی کے اہم ترین کاموں پر بھی فوکس نہیں کرنے دیتی۔
سوشل میڈیا ایسا ٹول ہرگز نہیں ہے کہ جو انتظار میں ہو کہ کوئی آئے اور اسے استعمال کرے، بلکہ یہ خود کو استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے، صارفین کی نفسیات کو جان کر انہیں پھر کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے امریکی پروفیسر ایڈورڈ ٹوفے ’سوشل ڈیلیما‘ میں کہتے ہیں: ’دنیا میں صرف دو ہی صنعتیں ہیں جو اپنے کسٹمرز کو یوزرز کہتی ہیں، ایک منشیات اور دوسری سافٹ ویئر۔‘
آپ گوگل پر کچھ سرچ کریں تو آپ کو ایک ہی موضوع پر متضاد رزلٹ ملیں گے۔ حقیقت کا جو ورژن آپ سمجھتے ہیں ٹھیک ہے، امکان ہے کہ گوگل کا الگورتھم بھی وہی دکھائے، یہی وجہ ہے کہ فیک نیوز جتنی تیزی سے وائرل ہوتی ہیں سوشل میڈیا کا بزنس اتنا ہی چمکتا ہے۔ الگورتھم صرف ڈیٹا کو دیکھتے ہوئے انہیں مزید وائرل کرے گا اور یہاں انسانیت منافعے کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔
ایسی خبریں بعض اوقات قومی سلامتی کا مسئلہ بھی بن جاتی ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کرونا وائرس ایک افواہ ہے اور ایسا ہی مواد یا بلاگ دیکھتا ہے تو عین ممکن ہے کہ اسے سرچ بار میں ایسا ہی مواد ملے جو اس کی سوچ کے عین مطابق ہو۔ میڈیا کی زبان میں اس کیفیت کو ’سیلیکٹو ایکسپوژر‘ اور ’ایکو چیمبر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کمپنیاں اس کام میں تو ماہر ہیں جو انسانیت اور انسانی نفسیات کی ریڈلائن عبور کرتی جا رہی ہیں۔
سمارٹ فون پر ہر ایپ پر سرخ دائرے میں نوٹیفیکیشن کا نمبر آتا ہے جو اصل میں آپ کو کلک کرنے کا کہہ رہا ہوتا ہے کہ دیکھو کتنے سارے نوٹیفیکیشز پڑے ہیں انہیں کلیئر کرو۔ یعنی سکرین پر واپس آو اور ہمارے لیے کام کرو۔ واش روم جانے سے پہلے اور صبح اٹھ کر پہلا کام موبائل کی سکرین دیکھنا عام ہے۔ وقت نہیں گزر رہا، موبائل، بور ہو رہے ہیں تو موبائل، کسی کا انتظار کر رہے ہیں تو موبائل، اپنی شخصیت کا کوئی پہلو دکھانا ہے تو موبائل، یعنی آپ وہ مشین بن رہے ہیں جسے ایک مشین انسان کی طرح کنٹرول کرتی ہی جا رہی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ انسان نے سسٹم تو بنا دیے لیکن مشین لرننگ کے یہ سسٹم اب خود کار طریقے سے خود کو بہتر سے بہتر کر رہا ہے جو انسان کے کنٹرول سے بھی باہر ہے۔ مصنوعی ذہانت انسانی فطرت ہی نہیں بلکہ انسانیت پر بھی قابو پا رہی ہے۔
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی فیس بک پراپیگنڈا کی زندہ مثال ہے۔ میانمار جنتا نے فیس بک کے ذریعے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکائی پھر سات لاکھ مسلمانوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ سیاسی انتہا پسندی اس کی عام مثال ہے، لوگ اسی الگورتھم کے ذریعے اپنے مطلب کی پارٹیوں کی باتیں سنتے اور پراپوگیٹ کرتے ہیں جس کا انجام بدامنی اور تشدد اور فساد کی صورت میں دیکھنا پڑتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت انسانیت کو پامال کر رہی ہے تو پھر اس کا حل کیا ہے؟ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ مزید مصنوعی ذہانت کے ٹولز بنانا ہوں گے جو ان ٹولز کے خلاف لڑیں جس سے معاشرے میں عدم استحکام آتا ہے لیکن کچھ ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے، وہ سمجھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کا توڑ مصنوعی ذہانت نہیں۔ مصنوعی ذہانت جعلی خبروں کو نہیں روک سکتی کیونکہ گوگل انسان نہیں مشین ہے جو فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔
امریکہ کی سٹین فورڈ یونیورسٹی کے شعبہ میڈیسن سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر اینا لمبیک سوشل میڈیا کو ایک ڈرگ سے تشبیہ دیتی ہیں، آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ آپ دن میں کتنا وقت سوشل میڈیا کو دے چکے ہوتے ہیں یقین نہ آئے تو ابھی اپنا سمارٹ فون اٹھائیں اور سکرین ٹائم میں سوشل میڈیا کا شیئر چیک کرلیں۔ اگر یہ ایک گھنٹے سے زیادہ ہے، تو سمجھ لیں کہ آپ کتنا قیمتی وقت کس کو دے رہے ہیں۔
آخر میں سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا کو استعمال کرنا بند کردیں؟ کیا اپیس کو ڈیلیٹ کردیں؟ تو اس کا جواب ہے، نہیں! اس تحریر کا مقصد سوشل میڈیا کی حوصلہ شکنی نہیں بلکہ اس کے استعمال میں توازن لانا ہے۔ سوشل میڈیا اس ڈیجیٹل دور کی ضرورت بھی بن چکا ہے اور زندگی کا حصہ بھی لیکن سمارٹ فون پر سمارٹ طریقے سے سوشل میڈیا کا استعمال کرنے کی مہارت آنی چاہیے۔
ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے اگر یہ خود کو صارفین کی جاسوسی کرنے والے بزنس ماڈل سے نکال دے لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ بڑی ٹیک کمپنیاں کسی خاص رولز اینڈ ریگولیشنز کو بھی فالو نہیں کرتیں، صارفین کا مفاد بھی ان کے لیے ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ صارفین سکرین سے جڑ کر اشتہار دیکھ کر انٹرنیٹ کمپنیوں پر جو وقت خرچ کرتے ہیں وہ اپنے اصل زندگی میں موجود اصل لوگوں میں گزاریں، وہ کریں جو صارفین خود کرنا چاہتے ہیں، سوشل میڈیا کے ’پیسیو یوزرز‘ نہ بنیں۔
گوگل اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو طویل مدتی اصلاحات کرنا ہوں گی اور وہ اس صورت ممکن ہوگا جب دنیا بھر سے عوام کا پریشر آئے گا اور یہ صرف ’میڈیا لٹریسی‘ کو عام کرکے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ صارفین خود بھی ان کمپنیوں کے استحصال سے بچ کر اپنا قیمتی وقت بچا سکتے۔ اپنے فون سے تمام غیر ضروری ایپس ڈیلیٹ کر دیں، نوٹیفیکیشنز کو ٹرن آف کردیں، کوئی بھی ایسی ویڈیو نہ دیکھیں جو یوٹیوب آپ کو تجویز کرے، کچھ بھی شیئر کرنے سے پہلے دیگر ذرائع سے فیکٹ چیک کرلیں کہ کہیں یہ جعلی تو نہیں؟ اپنی سوچ کے چیمبر میں نہ رہیں بلکہ آپ کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والوں کو بھی فالو کریں تاکہ انتہا پسندی سے دور رہ سکیں۔
موبائل چھوڑیں اور ایک دوسرے سے ذاتی طور پر ملیں، موبائل سے باہر کی دنیا بہت خوبصورت ہے۔ سوشل میڈیا کو اتنا ہی استعمال کریں جتنی ضرورت ہے۔ کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیں، اس سے پہلے کہ سوشل میڈیا آپ کو کنٹرول کرلے۔