ملکہ برطانیہ ایک بھرپور اور طویل عمر گزارنے کے بعد اسی دنیا میں لوٹ گئیں ہیں جہاں ان کے آبا واجداد سمیت دنیا میں آنے والے ہر فرد کو واپس جانا ہے۔ انہوں نے زندگی کے 96 برس خوب مزے اور آسائش میں گزارے۔
الزبتھ دوم نے آنکھ محل میں کھولی، بچپن اور لڑکپن سے جوانی تک کا سفر ایک شہزادی کے طور پر طے کیا، پھر تاج برطانیہ ان کے سر پر سج گیا۔ وہ 70 برس تک ملکہ برطانیہ رہیں۔
جب انہوں نے فروری 1952میں تخت وتاج سنبھالا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ صرف برطانیہ کی نہیں، بہت سے اور ملکوں کی بھی ملکہ ہیں۔ جب ان کا انتقال ہوا تو بھی ان کے زیر نگیں ریاستیں موجود تھیں۔
ان کے اقتدار سنبھالنے کے وقت یہ دعویٰ تو باقی نہ رہا تھا کہ برطانیہ میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا مگر یہ حقیقت سب دنیا والے مانتے رہے کہ برطانیہ کا ستارہ قسمت بہرحال جھلمل کرتا رہا۔
حتیٰ کہ وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ملکہ برطانیہ کے حلف اٹھانے کے دن سے آخری دن تک کسی نہ کسی صورت ان کے زیر نگیں ملکوں میں شامل رہا۔ 70 سال قبل ملکہ سے لیے گئے حلف کا یہ اقتباس آج بھی تروتازہ ہے۔
'Archbishop of Canterbury: “Will you solemnly promise and swear to govern the Peoples of the United Kingdom of Great Britain and Northern Ireland, Canada, Australia, New Zealand, the Union of South Africa, Pakistan, and Ceylon, and of your Possessions and the other Territories to any of them belonging or pertaining, according to their respective laws and customs?”
Queen Elizabeth II: “I solemnly promise so to do.”
کیونکہ الزبتھ دوم نے اپنے حلف میں جن ملکوں کے عوام پر حکومت کا حلف اٹھایا تھا ان میں برطانیہ عظمیٰ کے علاوہ شمالی آئرلینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، یونین آف جنوبی افریقہ، سیلون اور پاکستان شامل تھے۔ اس لیے ملکہ کے انتقال کے بعد پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں قومی پرچم سرنگوں کیا گیا اور سوگ کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔
اب ان کے فرزند ارجمند شہزادہ چارلس نے بادشاہت کا تاج پہنا ہے تو ان کے حلف کے الفاظ اور دنیا کے حالات میں تبدیلی ہو چکنے کے پیش نظر مممالک کا نام لینے کی بجائے شاہ چارلس سوم کے حلف میں برطانیہ اور اس کے سمندر پار علاقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس کی وجہ یقیناً ان زیر نگیں علاقوں اور ملکوں کی تعداد میں کمی بھی ہو سکتی ہے کہ اپنی ان نو آبادیوں کے کم ہونے کی خفت کا اظہار نہ ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تیز طرار ذرائع ابلاغ اور سفارتی حکمت عملی پیچیدہ تکنیکی تقاضے ایسا رکھنے پر مجبور کر رہے ہوں۔
بہرحال ملکہ برطانیہ ان معنوں میں خوب کامیاب رہیں کہ انہوں نے 70 سال قبل اپنی جس انجیل مقدس اور چرچ کے ساتھ گہری وفاداری کا حلف لیا تھا، طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی ملکہ اپنے بیٹے اور نئے شاہ برطانیہ چارلس سوم کو انجیل مقدس کے ساتھ وہی وابستگی اور وفاداری منتقل کر کے گئی ہیں۔
اسی لیے شاہ چارلس سوم نے اپنی تقریب حلف برداری کے دوران اسی بائبل کو ہاتھ میں لے کر گواہی دی کہ وہ اس کے ساتھ وفادار رہیں گے۔ ان کی والدہ نے 1952 میں بھی بائبل کے ساتھ اپنی تقریب حلف برداری میں گہری کمٹمنٹ اور وفاداری کا اظہار کیا تھا۔
مسلم دنیا کے حکمرانوں اور قائدین کا مندروں میں گھنٹیاں بجانے اور مورتیوں کو عوام کے لیے زیارت گاہ بنا دینے میں کردار ادا کرنا ازخود اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
ملکہ برطانیہ نے میز پر رکھی بائبل کے سامنے اعلان فرمان برداری کے انداز میں گھٹنے ٹیکتے ہوئے اپنا دایاں ہاتھ بائبل کی بیعت کرنے کے انداز میں رکھا تھا۔ شاہ چارلس سوم نے اسی بائبل کو اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ کر حلف اٹھایا ہے۔
دونوں میں یہ بات بھی مشترک رہی ہے کہ جب ان سے حلف لیتے ہوئے بائبل اور چرچ کے بارے میں استفہامیہ انداز میں وفاداری اور ان کے تحفظ کا پوچھا گیا تو ان کا جواب مکمل اثبات میں تھا۔
اب ستر سال بعد جب شاہ چارلس برطانیہ کے اس اعلیٰ ترین منصب تک پہنچے ہیں تو انہوں نے بھی کسی شرم یا جھجک کے بغیر بائبل اور چرچ کے ساتھ اپنی گہری وابستگی کا برطانیہ کے تمام تر زعما کے سامنے اعلان کیا ہے۔
یہ بلاشبہ جب پوری دنیا کی سیاست اور نظامِ مملکت کو مذہب سے بیگانہ اور اجنبی کرنے کی یورپی تحریک زوروں پر ہے۔ مسلم دنیا میں بھی یہ تحریک اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر ’انٹیلی جینسیا‘ اور حکمران طبقے کو یہ باور کرا چکی اور بہت سوں کو مذہب کے مقابل کھڑا کر چکی ہے۔
شاہ چارلس سوم کا اپنی والدہ کے نقش قدم پر مذہبی حوالے سے بھی کاربند رہنے کا عزم ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس پر خود برطانیہ کے لبرل اور سیکیولر طبقات کا آنے والے برسوں میں رد عمل کن شکلوں میں سامنے آتا ہے، یہ اپنی جگہ اہم ہو گا۔
مگر یہ بھی امکان رد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں عوامی، سیاسی اور سماجی سطحوں پر یہ سوال اٹھیں کہ ہمیں اپنی سیاست اور نظامِ حکومت کو کتاب وسنت سے الگ رکھ کر چلانے کی تبلیغ کیوں کی جاتی ہے؟
کیوں ایسا ہے کہ ملکہ برطانیہ اور شاہ چارلس کے آبائی دین کو برطانیہ سمیت بہت سے یورپی ممالک کے پرچم بھی صلیب اٹھائے کھڑے نظر آتے ہیں مگر دوسروں کو اپنی سیاست ’مذہب سے پاک‘ رکھنے کا درس دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آنے والے دنوں میں اٹھنے والے اس سوال کی بھی اہمیت کو نظر انداز کرنا آسان نہ رہے گا کہ اگر آج بھی برطانوی بادشاہ برطانیہ سے باہر کے کئی ممالک یا علاقوں کے عوام پر حکومت کر رہے ہیں اور اپنے حلف میں بھی اس کا اظہار کرتے ہیں تو کیا واقعی آزادی کی نیلم پری کی تاریخ محض ایک کہانی ہے یا جمہوریت کی نیلم پری برطانوی بادشاہت کے تابع ہے۔
اس پہلو سے بھی اہم ہے کہ برطانیہ اور اس انداز میں سوچنے والے تعلیم یافتہ طبقوں کے لیے پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بھی نوجوانوں کے حوالے سے فعال ہو رہی ہیں ان سوالوں کیا ہو گا اور کیسا ملے، اس بارے میں کہنا تو مشکل ہے لیکن دنیا میں سوچنے سمجھنے کی سطح پر ایک ہلچل ضرور جنم لے سکتی ہے۔
برطانوی شاہ کے حلف کے تناظر میں جہاں نئے سوالات ابھریں گے وہیں یہ امکانات بھی پیدا ہوں گے۔ کہ آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کے بارے میں یورپ اور امریکہ میں جاری معاندانہ انداز ختم کرنے کے لئے برطانوی قیادت اور ’انٹیلی جینشیا‘ کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔
نیز جس طرح شاہ برطانیہ چرچ کے تحفظ کا حلف لے کر سامنے آ رہے ہیں۔ مسلمانوں کی مساجد اور مدارس کا تحفظ بھی دنیا کے مدبر اور باضمیر قائدین سے اسی طرح کی توقع کی جائے اور دنیا میں سماجی وسیاسی سطح پر نفرت کے راستے میں رکاوٹ پیدا ہو۔
اگر اس پس منظر میں شاہ چارلس کے تخت برطانیہ سنبھالنے کے بعد مثبت انداز میں سفر آگے کی طرف بڑھا تو بلاشبہ اس سے افراتفری کی زد میں آ چکی مضطرب دنیا میں ہوا کے ایک تازہ جھونکے کا احساس ابھرے گا۔
بصورت دیگر ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کو جہاں آج کل خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے، ان کی ریاستی وسیاسی سوجھ بوجھ اور تدبر کا اعتراف جاری ہے، وہیں نئے بادشاہ کے حوالے سے ایسے سابقوں لاحقوں کا امکان کمزور ہوتا چلا جائے گا۔
یہ اپنی جگہ درست ہے کہ ملکہ برطانیہ نے 70 سالہ طویل اقتدار میں رہنے والی شخصیت کے باوجود زیادہ وقت دنیا کے مسائل کے بارے میں چپ اختیار کیے رکھی یا پھر برطانیہ کی حکومتی پالیسی کی پشت پر خاموش کھڑی رہیں۔
بدقسمتی سے انہیں 70 برسوں میں جس قدر مثبت انداز میں برطانیہ کے باہر کے علاقوں کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ نہ ہو سکا۔ دیکھا جائے تو اس بارے میں زیادہ تر تاریخ بھی خاموش ہے۔ خصوصاً اتنے طویل عرصے کے لیے حکمرانی پر رہنے والی شخصیت کے تدبر اور تجربے سے دنیا کی توقعات کے مقابلے میں خاموشی زیادہ رہی۔
ترکیہ اور مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے لیے جو 1920 میں برطانیہ اور فرانس نے مل کر معاہدہ کیا تھا، وہ الزبتھ دوم کی پیدائش سے پہلے ہوا تھا۔ تاہم جس طرح ان کی تخت نشینی کے بعد مشرقی وسطیٰ میں اسرائیل کو ہر طرح کے تسلط اور قتل وغارت کی اجازت جاری رہی اور آج بھی موجود ہے۔
اسے تبدیل کرنے کے لیے ان کا ایسا مدبرانہ کردار سامنے نہیں آ سکا جس کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ کے ممالک کی اکثریت بالعموم اور فلسطینی عوام بالخصوص انہیں اس کھاتے میں خراج عقیدت پیش کر سکیں۔
اب ملکہ برطانیہ کا اس دنیا کسے کوچ ہو چکا ہے اور انہیں ان کے آنجہانی شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ کے پہلو میں دفن کرنے کی تیاری بھی ہو چکی ہے۔ لیکن ان کا عالمی سطح پر مثبت یا منفی کردار کبھی دفن نہیں ہو سکے گا۔
مظلوم اقوام خصوصاً پناہ گزینوں کے کیمپوں میں بھی اسرائیلی ظلم وجبر کا مسلسل نشانہ بننے والے فلسطینی اور ان کی نئی نسل یہ سوچنے پر مجبور رہے گی کہ اس عالمی شخصیت کا ایسا کردار کیوں سامنے نہ آ سکا جو فلسطین کی سر زمین میں پیوست اسرائیلی خنجر کا تدارک کرنے والا ہوتا۔
دیکھنا یہ ہو گا برطانیہ کے نئے بادشاہ اس اہم عالمی مسئلے پر اپنی والدہ کی طرح خاموش تماشائی بن کر بادشاہت چلاتے رہتے ہیں یا اس قدیمی ادارے کو انسانیت کے لیے وسیع تر بنیادوں پر مفید ثابت کرتے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی آرا پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔