اسرائیل کی جانب سے متعارف کروائے گئے متعدد نئے امیگریشن قواعد کے تحت وزارت دفاع نے غیر ملکیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے علاقے میں کسی فلسطینی شہری سے محبت ہو جانے کی صورت میں اطلاع دیں۔
عرب نیوز کے مطابق غیر ملکی شہری کی کسی فلسطینی سے شادی کی صورت میں امیگریشن پابندیوں کا مطلب ہے کہ انہیں 27 ماہ کے بعد وہاں سے جانا پڑے گا اور وہ کم از کم چھ ماہ تک واپس نہیں آ سکیں گے۔
ضوابط میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ غیر ملکی، فلسطینی شناخت کے حامل افراد کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے 30 دنوں کے اندر اسرائیلی حکام کو مطلع کریں۔
فلسطین میں تعلیم کے شعبے پر بھی تازہ پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
طلبہ کے ویزے اور غیر ملکی لیکچررز کا نیا کوٹہ بالترتیب 150 اور 100 تک محدود کر دیا گیا ہے لیکن اسرائیلی ماہرین تعلیم پر ایسی کوئی پابندی نہیں۔
یورپی کمیشن نے فلسطینی یونیورسٹیوں کے غیر ملکی طلبہ اور ماہرین تعلیم پر پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق یورپی کمیشن نے اپنی تشویش سے اسرائیلی حکام کو اعلیٰ ترین سطح پر آگاہ کر دیا ہے۔
ویزے کے حصول اور اس میں توسیع پر بھی نئی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
امدادی تنظیموں اور کاروباری گروپس نے خبردار کیا ہے کہ لوگوں کو مغربی کنارے میں زیادہ مدت کے لیے کام کرنے یا رضاکارانہ خدمات سے روکا جا رہا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی این جی او ہاموکد کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جیسیکا مونتل نے کہا: ’یہ فلسطینی معاشرے کی آبادی کے اعتبار سے تبدیلی اور معاشرے کو بیرونی دنیا سے الگ تھلگ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔‘
ہاموکد نے نئی پابندیوں کے خلاف اسرائیلی ہائی کورٹ میں قانونی کارروائی شروع کی ہے۔ مزید 19 افراد بھی اس کی درخواست کا حصہ بن گئے ہیں۔
مونتل کا کہنا تھا کہ ’نئے قواعد نے لوگوں کے لیے فلسطینی اداروں میں آ کر کام کرنا، رضاکارانہ خدمات انجام دینا، سرمایہ کاری، پڑھانا اور مطالعہ کرنا بہت زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔‘
’کوگاٹ‘ کے مختصر نام سے جاری کیا گیا نیا حکم نامہ 97 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس نام سے وزارت دفاع میں گروپ کام کر رہا ہے۔
حکم نامے کو’یہودیہ اور سماریہ کے علاقے میں غیر ملکیوں کی آمد اور قیام کا طریقہ کار‘کا عنوان دیا گیا ہے۔
مغربی کنارے کے لیے انجیل کی اصطلاحات کا حوالہ دینے والا پمفلٹ پہلی بار فروری میں شائع ہوا تھا لیکن اس کا تعارف تاخیر کا شکار ہو گیا۔
بی بی سی نے کوگاٹ سے رابطہ کیا لیکن اس نے برطانوی نشریاتی ادارے کو کوئی جواب نہیں دیا۔
دوسری جانب اسرائیلی حکام نے اس بنیاد پر سخت پابندیوں کا دفاع کیا کہ ان سے سکیورٹی مضبوط ہو گی۔
انسانی حقوق کی تنظیم رائٹ ٹو انٹر نے کہا کہ دو افراد کے درمیان تعلق کو محدود کرنے کے عمل نے اسرائیلی حکام کے امتیازی، ظالمانہ اور من مانی طرز عمل کو بڑھاوا دیا ہے جو غیر ملکی میاں بیوی کے لیے بہت زیادہ انسانی مشکلات کا باعث بنے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تنظیم نے مزید کہا کہ اس سے مغربی کنارے میں خاندانوں کو زبردستی الگ کیا جائے گا۔
مغربی کنارے میں فلسطینی شہریوں کا غیر ملکی میاں یا بیوی کو طویل عرصے سے رہائش پر پابندی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افراد مشکل حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔
ان کی قانونی حیثیت کی کب تصدیق ہو گی وہ اس حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔
رائٹ ٹو انٹر کا کہنا ہے کہ نئی اسرائیلی تجاویز بہت سی موجودہ پابندیوں کو باضابطہ مزید سخت بنا دیں گی۔
تنظیم نے مزید کہا کہ اب بہت سے لوگ خاندانی شیرازہ برقرار رکھنے کے لیے بیرون ملک منتقل ہونے یا وہیں رہنے پر مجبور ہو جائیں گے۔