یہ پریشان کن احساس سب سے پہلے 2013 میں یو ایس اوپن میں ٹومی روبریڈو کے ہاتھوں راجر فیڈرر کی شکست کو دیکھ کر پیدا ہوا تھا۔
اس وقت یہ احساس ہوا کہ یہ سوئس کھلاڑی عام ہی ہیں۔
راجر فیڈرر، جنہوں نے41 سال کی عمر میں اپنے کیریئر کو خیرباد کہا، کبھی بھی معمول کے کھلاڑی دکھنے ہی نہیں چاہیے تھے۔
عام صرف انسانوں کے لیے تھا، وہ کھلاڑی جنہوں نے پسینہ بہایا اور محنت کی، جن کے لیے ریکٹ ان کا ہتھیار تھا۔
بہترین فارم میں لگتا تھا کہ فیڈرر کے پاؤں زمین پر نہیں ہیں اور وہ اپنی کلائی کے معمولی سے شاٹ سے ایک ناممکن میچ کو با آسانی فتح میں بدل سکتے تھے۔
— Roger Federer (@rogerfederer) September 15, 2022
اس سوئس ٹینس کھلاڑی نے اپنے کیریئر کا اختتام نہ صرف بہترین بلکہ اب تک کے سب سے پسندیدہ کھلاڑیوں میں سے ایک کے طور پر کیا۔ کھیل کا ایک دیوتا جس سے دنیا میں لاکھوں لوگ عقیدت رکھتے ہیں۔
اگرچہ فیڈرر نے اکثریت کی نسبت زیادہ کامیابی کے ساتھ وقت نہیں گزارا لیکن اس سے اداسی کا احساس کم نہیں ہوگا کہ آخر کار ان کا کیریئر اختتام کو پہنچا۔
لاکر روم میں بھی اداسی ہوگی جہاں ان کی کامیابیوں کے باوجود انہیں دوستانہ اور قابل رسائی سمجھا جاتا تھا جبکہ ان کے سب ساتھی بھی اس بات سے کافی حد تک واقف ہیں کہ ٹینس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے حاصل ہونے والے فوائد کے لیے وہ فیڈرر کے کتنے مقروض ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح سے چیزیں ہوئیں ہیں وہ سوئس سرحدی شہر باسل کے لڑکے کے لیے ایک دھچکا تھیں، جو ایک حیرت انگیز صلاحیت کا حامل تھا لیکن نوعمر لڑکوں کی طرح بلاسوچے سمجھے ردعمل دیتا، غصہ کرتا اور ریکٹ توڑ دیتا تھا۔
اور پھر انہوں نے ایک ماہر نفسیات سے مدد لی اور ٹینس آئیکان بورن بورگ کی طرز پر اندرونی سکون کو تلاش کر کے اپنی صلاحیتوں کے مطابق زندگی گزارنا سیکھا۔
فیڈرر کی کامیابی کا پہلا بڑا لمحہ 2001 میں ومبلڈن تھا جب 19 سالہ نوجوان کی حیثیت سے انہوں نے چوتھے راؤنڈ میں گراس کورٹ کے بادشاہ پیٹ سمپراس کو شکست دی۔
وہ پہلے ہی مارسیل میں اپنا پہلا اے ٹی پی ٹور فائنل جیت چکے تھے، اس سے پچھلے سال وہ سوئس ساتھی مارک روسیٹ سے ہار گئے تھے۔
فیڈرر پریشان تھے، یہ احساس ان پر غالب تھا کہ سلور میڈل جیتنے کا امکان ختم ہوگیا ہے۔ مارک روزسیٹ نے انہیں بتایا کہ فکر کی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
21 سال کی عمر میں ویمبلڈن میں پہلا بڑا اعزاز جیتنے پر ’آخر کار ہو گیا‘ کا احساس فیڈرر کی صلاحیتوں کا پیمانہ تھا۔
اور ایک بار جب انہوں نے اس کا ذائقہ چکھا تو پھر رکے نہیں۔
سال 2004 سے 2007 تک فیڈرر نے 11 بڑے اعزازات جیتے، جبکہ سال میں اوسطا صرف چھ میچ ہارے۔
اس کے باوجود اس بات پر کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ آیا ایک شخص کا غلبہ کھیل کو خراب کر رہا ہے۔
راجر فیڈرر جب بھی جیتتے تھے، تو ٹینس کی آرٹ کے طور پر ان کی تشریح کھیل میں تھوڑا سا مزید جادوئی احساس پیدا کر دیتی تھی۔
فرینچ اوپن کے فائنل میں رافیل نڈال سے شکست کے بعد وہ دوسری بار گرینڈ سلام کیلنڈر نہ جیت سکے، جو مردوں کے ٹینس میں صرف راڈ لیور اور ڈان بج جیت چکے تھے۔
اور یقینا رافیل نڈال کے ساتھ ان کی مخالفت راجر فیڈرر کے کیریئر کی وضاحت کرتی ہے۔
رافیل نڈال نے نوواک جوکووچ کا بہت بار سامنا کیا، لیکن سربیا کے اس کھلاڑی کو یہ کبھی نہیں بھولنے دیا گیا کہ وہ سوئس اور دھواں دھار ہسپانوی کھلاڑیوں کے دور میں ہیں۔
راجر فیڈرر اور رافیل نڈال کے ایک دوسرے کے خلاف کھیلے گئے سنسنی خیز میچوں میں 2008 میں ویمبلڈن میں نڈال کی جیتی ہوئی پانچ سیٹوں کی میراتھن سے بہتر کوئی نہیں۔
یہ اس جوڑی کے درمیان مکمل تضاد تھا جس نے عوام کے تخیل کو اپنی گرفت میں لیے رکھا۔
فیڈررکا کھیل خوبصورتی اورشائستگی کے متعلق تھا، ان کی جسمانی ساخت اور مضبوطی شائد ہی نوٹ کی گئی ہو جبکہ نڈال کی طاقت، چہرے پر سفاکیت جیسی تھی اور سپین کے کھلاڑی اپنی ناقابل یقین ذہنی طاقت کے ذریعے فتوحات حاصل کرنے پر خوش تھے۔
راجر فیڈرر کا ذہنی حوصلہ بھی بہت بلند تھا، جس کے بغیر ان کی کامیابیاں ممکن نہیں تھی، لیکن محسوس ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ ان کے لیے یہ صرف جیت یا ہار کے متعلق نہیں بلکہ اس بارے میں تھا کہ آپ نے کھیل کیسے کھیلا۔
اگرچہ رافیل نڈال کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے تھے جو گذشتہ برسوں میں مضبوط ہوئے، سوئس کھلاڑی نے کبھی بھی اپنے اس یقین کو نہیں چھپایا کہ ان کا کھیل اپنے حریف سے برتر تھا۔
اس نے فیڈرر کو مایوس کیا کہ دفاعی صلاحیتیں اوپر آنا شروع ہوگئیں اور شاید ان کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ٹینس میں حملہ کرنے کے اپنے عزم کو برقرار رکھتے ہوئے اتنے کامیاب رہے۔
لیکن فیڈرر پھر کبھی بھی کھیل پر اس طرح حاوی نہیں ہوسکے جس طرح وہ ان چار برسوں میں ہوئے تھے۔
ان کا ایک بہترین لمحہ 2009 کے موسم گرما میں آیا جب رولینڈ گیروس میں نڈال کی پہلی شکست کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے بالآخر ویمبلڈن کا تاج دوبارہ حاصل کرنے سے پہلے اپنے چوتھے فائنل میں فرنچ اوپن ٹرافی اٹھائی۔
تین سال بعد، بہت سے لوگوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ان کے بڑے اعزاز جیتنے کے دن ختم ہو گئے ہیں، فیڈرر نے اینڈی مرے کو شکست دے کر ساتواں ومبلڈن ٹائٹل اپنے نام کیا۔
ایسے لوگ بھی ہیں جو سوئس باشندوں کو متکبر سمجھتے ہیں اور جب وہ اکثر ہارنے لگے تو با وقار شکست خوردہ کا کردار آسانی سے نہیں ابھرا۔
لیکن رفتہ رفتہ فیڈرر اپنی نئی حقیقت سے ہم آہنگ ہو گئے، اس میں کوئی شک نہیں وہ جڑواں لڑکیوں کے باپ بنے اور پھر، قابل ذکر طور پر، جڑواں لڑکوں کے۔
جب 2013 میں کمر کے مسائل کی وجہ سے ان کی فارم خراب ہوئی اور مسلسل 36ویں بڑے اعزاز میں ان کی شکست پر فیڈرر نے خود پر اپنے شکوک و شبہات کا انکشاف کیا۔
35 سال کی عمر کی طرف بڑھتے ہوئے، ان کے سامنے مشکلات کھڑی تھیں، لیکن فیڈرر نے عمر کو اپنے راستے میں کھڑا نہیں ہونے دیا۔
انہوں نے اپنے بچپن کے ہیرو اسٹیفن ایڈبرگ کو کوچ کے طور پر بھرتی کیا اور2014 میں دوبارہ ومبلڈن کے فائنل میں پہنچنے کے لیے اپنی راہ ہموار کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رافیل نڈال چوٹ سے متاثر ہوئے لیکن اب بڑا اعزاز جیتنے کے لیے فیڈرر کے راستے میں جوکووچ تھے، جنہوں نے یو ایس اوپن میں ایک اور آخری جنگ جیتنے سے پہلے انہیں مسلسل کئی برس ومبلڈن میں ہرایا تھا۔
پھر جب ایسا لگتا تھا کہ فیڈرر جسمانی طور پر ہار ماننا شروع ہو چکے ہیں، انہوں نے سب سے قابل ذکر باب لکھا۔
گھٹنے کی سرجری کے باعث چھ ماہ کھیل سے باہر رہنے کے بعد 35 سالہ فیڈرر نے 2017 کے آسٹریلین اوپن فائنل تک مقابلہ کیا جہاں نیٹ کی دوسری جانب ان کے پرانے حریف رافیل نڈال تھے۔
فیڈرر نے تقریبا ایک دہائی میں کسی بڑے مقابلے میں رافیل نڈال کو شکست نہیں دی اور ایسا لگتا تھا کہ سپین کے کھلاڑی نے پانچویں سیٹ میں 3-1 کی برتری حاصل کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنے حریف کو شکست کی وارننگ دے دی تھی۔
لیکن اس بار کہانی کا اختتام ماضی جیسا نہیں تھا۔ فیڈرر نے مسلسل حملے کیے اور انہیں شاندار انعام ملا جو ان کا 18 واں اور سب سے غیر متوقع سب سے بڑا ٹائٹل تھا۔
وہ رکے نہیں، انہوں نے اسی سال ریکارڈ آٹھواں ومبلڈن ٹائٹل جیتا اور پھر 2018 میں میلبرن کا تاج اپنے سر سجایا۔
نڈال اور جوکووچ ان کے ریکارڈز کے بہت تیزی سے نزدیک آگئے ہیں اور ایسا لگتا ہے فیڈرر کے عظیم ریکارڈز کا ٹوٹنا ناگزیر ہے۔
وہ ایک اور فائنل میں پہنچے، 2019 میں ومبلڈن میں جوکووچ کے خلاف دو میچ پوائنٹس رکھنے کے بعد تکلیف دہ طور پر ہار گئے تھے۔
اب تک کا سب سے بہترین کھلاڑی کون ہے اس بارے میں بحث جاری رہے گی، لیکن ٹینس بہت اچھے سے جانتا ہے کہ دوسرا راجر فیڈرر کبھی نہیں آئے گا۔
© The Independent