پاکستان نے مارچ 2016 میں کلبھوشن یادو کو بلوچستان سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ان پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے جاسوسی اور دہشت گردی کے الزامات تھے۔
بعد میں پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت 10 اپریل 2017 کو کلبھوشن کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جس پر بھارت نے نو مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن کی پھانسی کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔
بھارت کی اس اپیل پر عالمی عدالت اانصاف نے سماعت کرتے ہوئے پاکستان کو ہدایت دی تھی کہ مقدمے کا حتمی فیصلہ آنے تک کلبھوشن یادو کو پھانسی نہ دی جائے۔
آئی سی جے نے رواں سال 18 سے 21 فروری تک مقدمے کی سماعت کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں سال فروری میں ہونے والی سماعت کے دوران بھارت نے موقف اختیار کیا تھا کہ اسے کلبھوشن یادو تک سفارتی رسائی دی جائے۔ بھارت کا موقف تھا کہ ان پر چلایا جانے والا مقدمہ فیئر ٹرائل نہیں تھا اور سزا سنائے جانے سے قبل ان تک بھارت کو سفارتی رسائی نہیں دی گئی۔ اس لیے انسانی حقوق کے تحت کلبھوشن کی رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔
بھارت نے پاکستان میں یہ مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے پر بھی اعتراض کیا تاہم بھارت نے عالمی عدالت میں ان کی ریٹائرمنٹ کے ثبوت پیش نہیں کیے تھے۔
دوسری جانب اسی سماعت کے دوران پاکستان نے جوابی دلائل میں موقف اختیار کیا تھا کہ بھارت ویانا کنونشن کے معاہدوں کے تحت سفارتی رسائی کی بات کرتا ہے تو کسی دوسرے ملک میں جاسوس بھیجنا بھی اس کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔
پاکستانی وکیل خاور قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت تو کلبھوشن یادو کی شہریت ہی ثابت نہیں کر سکا کیونکہ کلبھوشن کے پاس پاسپورٹ حسین مبارک پٹیل کے نام سے ہے جبکہ سروس کارڈ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کا ہے۔
کلبھوشن کیس میں کب کیا ہوا ہے؟
تین سال قبل مارچ 2016 میں پاکستانی حکام نے بھارتی شہری کلبھوشن یادو کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا اور اسی ماہ پاکستانی فوج کی جانب سے دعویٰ سامنے آیا کہ کلبھوشن یادو بھارتی بحریہ کے افسر اور بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کے ایجنٹ ہیں۔
پاکستانی فوج کے اس دعویٰ کے ٹھیک دو روز بعد حکومت پاکستان نے بھارتی سفیر کو طلب کیا اور کلبھوشن یادو کے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخلے اور دہشت گردی میں ملوث ہونے پر باضابطہ احتجاج کیا۔
اس کے چند ہی روز بعد پاکستان کی جانب سے کلبھوشن یادو کا زیر حراست اعترافی بیان ویڈیو کی صورت میں جاری کیا گیا اور بلوچستان حکومت نے دہشت گردی کی دفعات کے تحت ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی۔
پاکستان حکام کے مطابق کمانڈر کلبھوشن کے پاس حسین مبارک کے نام سے پاسپورٹ موجود تھا جس کے اصل ہونے کی برطانیہ کا فرانزیک ادارہ تصدیق کر چکا ہے۔ کلبھوشن نے حسین مبارک پٹیل کے نام کے پاسپورٹ پر 17 بار دلی سے بیرون ملک فضائی سفر کیے۔
اپریل 2017 میں کلبھوشن یادو کو فوجی عدالت نے ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیا اور 10 اپریل کو انہیں سزائے موت سنا دی۔
کلبھوشن یادو کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر 10 مئی 2017 کو بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے اس سـزائے موت کو رکوانے کی اپیل کی۔ 15 مئی 2017 کو عالمی عدالت میں بھارتی درخواست کی سماعت ہوئی اور دونوں جانب کا مؤقف سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
تین روز بعد عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو مقدمے کا حتمی فیصلہ آنے تک کلبھوشن یادو کو پھانسی نہ دینے کی ہدایت کی۔