صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں ایک 18 سالہ لڑکی نے اس وقت خودکشی کر لی جب پولیس نے انہیں مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے والے چار افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔
متاثرہ لڑکی کا تعلق ضلع تھرپارکر کی تحصیل کلوئی کے نواحی گاؤں مہران سومرو سے تھا۔
تاہم لڑکی کی خودکشی کے بعد کلوئی پولیس نے لڑکی کے بھائی زاہد احمد کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ڈسٹرکٹ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی میرپور خاص اور ایس ایس پی تھرپارکر کو طلب کیا ہے۔
عدالت نے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایچ او اور کیس کا تفتیشی افسر 22 ستمبر کو ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہوں۔
زاہد احمد نے ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا ہے کہ ان کی بہن گاؤں سے باہر نہر سے پانی بھرنے گئی تو پڑوس کے گاؤں طاہر چانڈیو کے رہائشی افراد نے انہیں مبینہ طور پر اغوا کر کے اجتماعی جنسی زیادتیکا نشانہ بنایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لڑکی کے بھائی نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ یہ واقعہ پانچ روز قبل پیش آیا تھا مگر کچھ مقامی بااثر افراد نے پولیس پر مبینہ طور پر دباؤ ڈالا کہ مقدمے کا انداراج نہ کیا جائے۔ ’جس پر دل برداشتہ ہو کر ان کی بہت نے زہریلی دوا سے خود کشی کر لی اور اس کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کیا۔‘
دوسری جانب تھرپارکر پولیس کے ترجمان نیاز ڈھاٹی کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ پیر کو پیش آیا اور پانچ دن پہلے واقعہ پیش آنے والی بات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے پولیس ترجمان نے کہا کہ ’متاثرہ خاندان نے جیسے ہی پولیس سے رابطہ کیا تو پولیس نے بغیر کسی تاخیر کے مقدمہ درج کر لیا اور دو بھائیوں عطا محمد عرف طاہر اور زاکر ولد حاجی چانڈیو کو گرفتار کر لیا۔ جبکہ مقدمے میں نامزد دو افراد تاحال لاپتہ ہیں، جنہیں بہت جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔‘