قبائلی ضلعے باجوڑ کی شوانہ حلیم پہلی خاتون ہیں جو لوئر دیر میں ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر بھرتی ہوئی ہیں۔
شوانہ نے پشاور یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹر کر رکھا ہے۔ وہ اپنے گھر میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔
شوانہ کے مطابق ان کے خاندان میں کوئی بیوروکریٹ نہیں تھا، جس سے متاثر ہو کر وہ سرکاری افسر بننے کا سوچتیں اور خاتون ہونے کی حیثیت سے ویسے ہی بہت سارے مسائل سامنے آتے ہیں۔
’آپ کو لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ کو یونیورسٹی اور کالج اکیلے جانا پڑتا ہے لیکن جب آپ میں لگن ہوتی ہے تو سب آسان ہو جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’اللہ تعالی ذریعہ بنا دیتے ہیں۔ بس آپ کو محنت کرنی چاہیے، محنت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔‘
شوانہ نے لوئر دیر میں ضلعی فنڈز سے چار کمیونٹی ماڈل سکول چلائے ہیں، جن میں سکرینز، انٹرنیٹ اور ای لرننگ کی سہولیات موجود ہیں۔
ان کے مطابق: ’لوگ تعلیم میں بھی شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں۔ آج کل بچے کتابیں نہیں پڑھتے، ان کے لیے کتابیں پڑھنا جیسے موت ہو جبکہ پہلی شرط ہی یہی ہے کہ آپ مطالعہ کریں کیونکہ ہم بھی اسی طریقے سے آگے آئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پختون معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ ’اگر تعلیم کی اجازت مل بھی جائے تو وہ میٹرک سے آگے نہیں جا پاتیں اور اگر نوکری کی اجازت ملے تو زیادہ سے زیادہ ٹیچنگ کی طرف چلی جاتی ہیں۔‘
شوانہ نے ماؤں کو پیغام دیا کہ وہ اپنی بچیوں کی تعلیم کے علاوہ ان کی تربیت پر بھی خاص توجہ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت محتاط رہتی ہیں کیونکہ انہیں علاقے میں رول ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
’اگر مجھ سے کچھ غلط ہو جائے تو لوگ اپنی بچیوں کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہیں لوگوں کی نظریں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ ’لوگوں کی بھی اتنی غلطی نہیں۔ پہلی دفعہ ہے لیکن وقت کے ساتھ آپ ایسی چیزوں کو نظر انداز کرنا سیکھ لیتے ہیں۔
’لوگ آہستہ آہستہ سیکھ لیں گے اور اس تبدیلی کو قبول کر لیں گے۔‘