ایک اور پاکستانی وفد کا دورۂ اسرائیل

دس روزہ دورے میں اسرائیلی صدر، سفارتی افسران و ماہرین کے علاوہ مذہبی و سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں طے ہیں، جب کہ پاکستانی وفد میں ایک سابق وزیر بھی شامل ہیں۔

شرکہ نامی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ پاکستانی وفد کی تصویر (شراکہ/ ٹوئٹر)

چند پاکستانی اور پاکستانی نژاد امریکی شہریوں پر مشتمل ایک وفد 18 ستمبر سے اسرائیل کے دورے پر ہے۔ اس وفد میں پاکستانی امریکی تھنک ٹینک کے اراکین اور مختلف اہم شخصیات شامل ہیں۔

شراکہ آرگنائزیشن اور بین المذاہب ہم آہنگی کی روح رواں انیلا علی نے سوشل میڈیا پہ تصویر جاری کی جس سے اس موضوع پر دوبارہ گفتگو کا آغاز ہوگیا ہے۔

چند ماہ قبل بھی ایک پاکستانی وفد نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔

انیلا علی سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو انہوں نے نہ صرف دورے کی تصدیق کی بلکہ پاکستانی سابق وزیر مملکت و سابق چئیرمین پی سی بی ڈاکٹر نسیم اشرف کی شمولیت کا بھی بتایا۔

مقصد ’امن قائم کرنا ہے‘

ڈاکٹر نسیم اشرف سابق جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں اور وہ پرویز مشرف کے دور اقتدار میں چیئرمین پی سی بی کے عہدے پر بھی تعینات رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ چھ سال وزیر مملکت برائے انسانی ترقی بھی رہ چکے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ دو تنظیمیوں کی طرف سے منعقد کردہ نجی دورہ ہے جس کا مقصد خطے میں امن قائم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں یہ واضح کر دوں کہ یہ دورہ کسی حکومتی سرپرستی سے نہیں ہے تاکہ کوئی کوئی ابہام نہ رہے۔ بدھ کو گروپ کی اسرائیلی دفتر خارجہ کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں مسلم ممالک کے ساتھ خطے میں تعلقات اور امن کے حوالے سے تفصیل سے بات چیت کی گئی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’گروپ میں تین صحافی پاکستان سے شامل ہیں، ایک پاکستانی صحافی دبئی سے جبکہ دو پاکستانی امریکی صحافی امریکہ سے شریک ہیں۔ اس کے علاوہ گروپ میں ایک امام مسجد برطانیہ سے بھی شامل ہیں۔‘

پاکستانی صحافیوں سے رابطے

انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق دورے کے لیے پاکستان میں مقیم صحافیوں سے بھی رابطہ کیا گیا تھا۔ ایک صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ انہیں اس دورے میں شرکت کے لیے دعوت دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اسرائیل لے جانے کے سارے دستاویزی انتظامات بھی کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ معاملہ اسرائیل جانے کا تھا اور پاکستان نے فلسطین کے تناظر میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہوا تو وہ مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ بطور پاکستانی انہیں اسرائیل جانا چاہیے اس لیے انہوں نے میزبان گروپ سے معذرت کر لی۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ جن افراد کو دورے کے لیے مدعو کیا گیا یا جو اس دورے پر گئے ان میں سے بیشتر اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انیلا علی نے نو رکنی گروپ میں شامل مزید نام بتانے سے احتراز کیا کہ مناسب وقت پہ بتائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ’دورہ دس روز پر محیط ہے۔‘

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ دعوت نامے کے باوجود مٹھی بھر پاکستانی ہی اس دورے کے لیے آمادہ ہوئے۔

دورے کا مقصد

انیلا علی نے اسرائیل میں دورے کے حوالے سے بتایا کہ وہ لوگوں کے سوچنے کا انداز تبدیل کرنا چاہتی ہیں اور یہ سب پاکستان اور اس کے مستقبل کے لیے ایک کوشش ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقصد مثبت طریقے سے پاکستان اسرائیل تعلقات کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ دس روزہ دورے میں اسرائیلی صدر، سفارتی افسران و ماہرین اس کے علاوہ مذہبی و سیاسی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں طے ہیں۔

حکومت پاکستان کا موقف

انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا دفتر خارجہ ان دوروں سے آگاہ ہے؟ تاہم ان کی طرف سے جواب نہیں دیا گیا۔

دوسری جانب انیلا علی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر واضح کیا ہے کہ یہ نجی دورہ ہے اور پاکستانی نژاد امریکی جہاں سفر کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔

چار ماہ میں پاکستانی امریکی گروپ کا یہ اسرائیل کا دوسرا دورہ ہے۔ پہلا دورہ رواں برس مئی میں ہوا تھا جس میں پاکستانی صحافی احمد قریشی بھی شریک تھے جو دہری شہریت رکھتے ہیں لیکن اس شرکت پر انہیں سوشل میڈیا اور پاکستان میں کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور پی ٹی وی کی ملازمت سے ہاتھ بھی دھونا پڑے۔

پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات موجود نہیں اور نہ ہی پاکستان نے آج تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ پاکستان پاسپورٹ پر کوئی شہری اسرائیل کا سفر بھی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا موقف ہے مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کی دو قراردادوں پر عمل ہونا چاہیے جو کہ دو ریاستوں کا ذکر کرتی ہیں۔  

سفارتی ردعمل اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی

امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس (USIP) کے مطابق ٹریک ون ڈپلومیسی وہ ہوتی ہے جہاں حکومتی سطح پر دو ملکوں میں آپس میں بات چیت ہو۔ ٹریک ٹو وہ ہے جب حکومتی عہدے داروں کی بجائے دو اطراف سے غیر سرکاری افراد مذاکرات میں شرکت کرتے ہیں۔ ان افراد میں تعلیمی شعبے، فنونِ لطیفہ اور صحافت وغیرہ سے منسلک افراد شرکت کرتے ہیں۔ عام طور پر ٹریک ٹو کا سہارا اس وقت لیا جاتا ہے جب حالات ایسے ہوں کہ دو ملک براہِ راست آپس میں بات نہ کر سکتے ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق سفیر عبدالباسط نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اس طرح گروپوں کے دورے کو ٹریک ٹو ہی کہیں گے لیکن ٹریک ٹو میں کسی سطح پر معاونت حاصل ہوتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے معاملے پر عوامی جذبات اور فلسطین و کشمیر کے معاملے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹریک ٹو اس صورت میں کامیاب ہوں گے اگر ٹریک ٹو ڈپلومیسی گروپ اسرائیل کو فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے قائل کرے۔ اس کے علاوہ اسرائیل مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پہ زور دے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ٹریک ٹو ڈپلومیسی اس نکات پہ کامیاب ہو جاتی ہے تو صرف اسی صورت میں اسرائیل پاکستان کا معاملہ آگے بڑھ سکتا ہے۔

سابق سفارت کار عاقل ندیم نے کہا کہ رابطے استوار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا اسرائیل سے کوئی براہ راست ایشو نہیں ہے۔ فلسطین کے تناظر میں اگر معاملے حل ہوں تو پھر کوئی حرج نہیں۔‘

سابق سیکرٹری دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے کہا کہ اسرائیل کے حوالے سے میڈیا رپورٹس ہی دیکھی ہیں لیکن یہ علم نہیں کہ ایسا واقعی ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی راہ ہموار ہو رہی ہے تو یہ قائداعظم محمد علی جناح کی جانب سے بنائے گئے خارجہ پالیسی اصولوں سے انحراف ہو گا اور ایسا ہونے کی صورت میں پاکستانی عوام سے بھی اس معاملے کو منظوری کی مُہر نہیں ملے گی۔

انہوں نے مزید کہا خارجہ پالیسی میں اتنی بڑی تبدیلی سے قبل پارلیمنٹ میں اس معاملے پر بحث ضروری ہے۔ تاہم ابھی تک اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا