1948 میں اسرائیل کے قیام اور فلسطینیوں کی ان کی سر زمین سے بے دخلی کی یاد میں ہر سال 15 مئی کو منائے جانے والے یومِ نکبہ (یومِ المیہ) کے موقع پر اتوار کو فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کی جانب سے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا گیا۔ احتجاج میں مختلف سماجی تنظیموں کے رہمناؤں سمیت خواتین نے بھی شرکت کی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکریٹری جنرل صابر ابو مریم نے فلسطینی صحافی شیرین ابو عاقلہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان فلسطینی صحافیوں کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے عہدیدار صابر ابو مریم نے ایک پاکستانی صحافی کے دورہ اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب کراچی یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے صدر راشد عزیز اورجنرل سیکریٹری موسٰی کلیم نے اپنے بیان میں امریکی پاکستانیوں کے ایک وفد کے ساتھ پاکستانی صحافی کے دورہ اسرائیل پر شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تحقیقات کرے کہ سرکاری ٹی وی سے وابستہ ایک صحافی نے کس طرح سےایک ایسے ملک کا دورہ کیا جس کو فلسطینیوں کی زمین پر غیر قانونی قبضے اور ’ظلم وبربربیت‘ کی وجہ سے پاکستان نے تسلیم نہیں کیا ہے۔
کے یو جے دستور کے رہنماؤں نے اتوار کو جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب قابض اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کو دنیا کے سامنے لانی والی بہادر فلسطینی صحافی شیرین ابو عاقلہ کو قتل کردیا اور ان کی آخری رسومات کے دوران بھی حملہ کیا گیا۔
کے یو جے دستور کے صدر راشد عزیز نے کہا جب فلسطینی صحافی کو شہید کیا گیا تو دورہ کرنے والے پاکستانی صحافی نے اس کی مذمت کرنے کے بجائے قابض ریاست کے جھوٹ پر مبنی سرکاری موقف کو ایک ٹویٹ کے ذریعے آگے بڑھانے کی ’مذموم کوشش‘ کی جو انتہائی شرمناک بات ہے۔
صحافتی انجمن کے جنرل سیکریٹری موسٰی کلیم نے مزید کہا کہ فلسطینی سرزمین پر قبضے اور فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی ’شرمناک تاریخ‘ ہے جس کی وجہ سے چند ایک کے علاوہ بیشتر مسلمان ممالک نے اسرائیل کو تمام تر دباؤ اور لالچی حربوں کے باجود تسلیم نہیں کیا ہے مگر اب یہ کوشش ہورہی ہے کہ کسی طرح فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو جواز بخشنے کے لیے اسے مسلمان ممالک بطور خاص دنیا کی واحد نیوکلیئر مسلمان ریاست پاکستان سے تسلیم کروایا جائے۔
ان کے مطابق: ’امریکی وفد کا دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی اور ایک ایسے وفد میں پاکستانی صحافی کی شمولیت شرمناک بات ہے۔‘
مگر فلسطینی صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے اور ان کے ایک حالیہ بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے موسٰی کلیم نے کہا کہ امریکی پاکستانیوں کے وفد میں پاکستانی صحافی کی شمولیت پر فلسطینی صحافی بھائیوں کا غم و غصہ جائز ہے مگر ہم ان کو یقین دہانی دلاتے ہیں کہ پاکستانی صحافی اپنے فلسطینی بھائیوں اور وہاں اسرائیلی جارحیت اور ظلم و استبداد کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے جان کی بازی لگانے والے فلسطینی صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کے ساتھ یہاں کے صحافی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے کی جانی والی ’مذموم کوششوں‘ کو ناکام بنادیں گے۔
اینٹنی بلنکن کا شیرین ابو عاقلہ کے خاندان سے دلی ہمدردی کا اظہار
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے فلسطینی صحافی شیرین ابو عاقلہ کی آخری رسومات میں اسرائیل کی جانب سے طاقت کے استعمال پر تنقید کرنے کے بعد ان کے اہل خانہ سے بات کی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق محکمہ خارجہ کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ بلنکن نے نیٹو کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے برلن جانے والی پرواز سے شیرین ابو عاقلہ کے اہل خانہ سے فون پر بات کی اور تعزیت کا اظہار کیا۔
عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ بلنکن نے شیرین کے صحافتی کام اور آزاد اور خود مختار پریس کی اہمیت پر بات کی۔
بلنکن نے شیرین کے خاندان کو مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارت کاروں کی مدد کی پیشکش کی، جن کے پاس امریکی شہریت بھی ہے۔
الجزیرہ ٹیلی ویژن کی معروف صحافی شیرین ابو عاقلہ کو بدھ کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک اسرائیلی حملے کی کوریج کر رہی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الجزیرہ نے کہا کہ اسرائیل نے انہیں بے دردی سے قتل کیا ہے۔ اسرائیل نے ابتدا میں کہا تھا کہ ’فلسطینی عسکریت پسندوں کو اس قتل کے لیے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔‘
اسرائیلی فورسز نے جمعے کو صحافی کی آخری رسومات کے دوران شرکا پر دھاوا بول دیا تھا جس سے کئی افراد زخمی ہوئے تھے۔
بلنکن نے اس سے قبل کہا تھا کہ انہیں اسرائیلی پولیس کے ان اقدامات سے تکلیف ہوئی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے بھی شیرین کے قتل کی شفاف تحقیقات پر زور دیا ہے۔