امریکہ اور یورپ کے درمیان تین کلومیٹر بلند برف کی تہوں سے ڈھکا ہوا بیابان اور تقریباً بےآباد جزیرہ اس وقت اچانک دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’ہمیں قومی اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے گرین لینڈ کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم اسے ایک طریقے یا دوسرے طریقے سے حاصل کر لیں گے۔‘
ٹرمپ کی یہ بات نئی نہیں ہے، وہ 2019 سے کہہ رہے ہیں امریکہ کو قومی سلامتی کے لیے گرین لینڈ کی ضرورت ہے۔ اس سال جنوری میں صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی وہ کہہ چکے ہیں اگر ضرورت پڑی تو گرین لینڈ کے حصول کے لیے فوجی طاقت بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔
اس کے جواب میں ڈنمارک کی وزیر اعظم میٹ فریڈرکسن نے کہا ہے کہ گرین لینڈ خود مختار ڈینش علاقہ ہے اور ’برائے فروخت نہیں ہے۔‘
ڈنمارک کی نوآبادی
گرین لینڈ کی تاریخ پر ایک نظر دوڑانے سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں ہزاروں سال سے سخت جان اِنوئٹ یا ایسکیمو باشندے آباد ہیں۔ پھر 10ویں صدی میں جب وائکنگز نے دنیا کے مختلف حصوں پر یلغاروں کا سلسلہ شروع کیا تو گرین لینڈ بھی ان کی زد میں آیا۔ گرین لینڈ نام بھی انہی کا دیا ہوا ہے۔
اس کے بعد 15ویں صدی کے بعد یورپی ملکوں نے جب دنیا بھر میں جا جا کر ملکوں پر قبضے کرنا شروع کر دیے تو ان کی دیکھا دیکھی ڈنمارک نے بھی 1721 میں گرین لینڈ کو اپنی نوآبادی بنا ڈالا۔
دوسری عالمگیر جنگ میں ہٹلر نے ڈنمارک پر قبضہ کر لیا تو امریکہ نے گرین لینڈ میں فوجی اڈے قائم کر لیے تاکہ جرمنی وہاں قدم نہ جما سکے۔ اسی وقت سے امریکہ کی گرین لینڈ پر نظریں ہیں۔ 1946 میں امریکہ نے گرین لینڈ کو دس کروڑ ڈالر کے عوض خریدنے کی پیش کش کی تھی، مگر ڈنمارک نے انکار کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنگ ختم ہوئی گرین لینڈ دوبارہ ڈنمارک کے کنٹرول میں آ گیا۔ اس کے بعد سے رفتہ رفتہ اس کے اختیارات میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ آج یہ ڈنمارک کا خودمختار حصہ ہے، اور اس کی اپنی پارلیمان ہے، لیکن دفاع، مالیات، امورِ خارجہ اور سپریم کورٹ جیسے معاملات پر ڈنمارک کا کنٹرول ہے۔ 11 مارچ کو وہاں انتخابات ہوئے ہیں اور جن پارٹیوں نے فتح حاصل کی ہے وہ ڈنمارک سے الگ ہو کر آزاد گرین لینڈ کی حامی ہیں۔
آج ہم مل کر اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ٹرمپ کے نزدیک گرین لینڈ کی اتنی سٹریٹیجک یا جیوپولیٹیکل اہمیت کیوں ہے کہ انہوں نے کانگریس سے اہم خطاب میں بھی اس کا اعادہ کرنا کیوں مناسب سمجھا؟
سب سے پہلے تو گرین لینڈ کے بارے میں چند معلومات۔ گرین لینڈ ڈنمارک کا جزیرہ ہے جس کا رقبہ 21 لاکھ 66 ہزار مربع کلومیٹر، یعنی پاکستان سے تین گنا زیادہ، اور آبادی صرف اور صرف 57 ہزار۔ آبادی کی کمی کی وجہ وہی ہے کہ اس جزیرے کا بڑا حصہ برفانی تودوں سے ڈھکا ہوا ہے اور قابلِ بود و باش نہیں ہے۔
معدنیات کا خزانہ
گرین لینڈ کے قیمتی ترین قدرتی وسائل اس کی معدنیات ہیں، جن میں سونے اور پلاٹینم جیسی قیمتی دھاتوں کے علاوہ انڈسٹری میں استعمال ہونے والی بنیادی دھاتیں یعنی زنک، لوہا، تانبا، نکل، کوبالٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں یورینیم اور دوسری نایاب عناصر بھی موجود ہیں۔
اس وقت دنیا میں دو ملکوں کے درمیان ٹیکنالوجی کے میدان میں سرد جنگ جاری ہے، چین اور امریکہ۔ اور اس جنگ میں کچھ دھاتیں ہتھیاروں کی سی اہمیت اختیار کر گئی ہیں کیوں کہ یہ اسلحے، دفاعی ساز و سامان، حساس آلات، الیکٹرک گاڑیوں اور کمپیوٹروں میں استعمال ہوتی ہیں۔
چین کا خوف
گرین لینڈ میں چین کی دلچسپی خاصی پرانی ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے ایٹمی توانائی کے مطابق کوانے فیلڈ کی کان میں یورینیم کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ 2010 کی دہائی کے دوران گرین لینڈ نے آسٹریلوی کمپنی انرجی ٹرانزیشن منرلز کو یہ کان لیز پر دے دی، مگر جب پتہ چلا کہ چین کی ایک کمپنی کے بھی اس میں شیئرز ہیں تو یورپ اور امریکہ میں کھلبلی مچ گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2021 میں گرین لینڈ کی پارلیمنٹ نے یورینیم کی کان کنی پر پابندی لگا دی۔
2015 میں گرین لینڈ کے وزیر خزانہ اور داخلہ نے کان کنی، پن بجلی، بندرگاہوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں ممکنہ سرمایہ کاری پر تبادلۂ خیال کے لیے چین کا دورہ کیا۔ ایک فرم، چائنا کمیونیکیشنز کنسٹرکشن کمپنی نے دو ہوائی اڈوں کی تعمیر کے لیے بولی لگائی۔
ایک اور چینی فرم، جنرل نائس گروپ نے شمال مشرقی گرین لینڈ میں ایک ترک شدہ ڈینش بحری اڈے کو خریدنے کی پیشکش کی، جبکہ چائنیز اکیڈمی آف سائنسز نے گرین لینڈ کے دارالحکومت ’نُک‘ کے قریب ایک مستقل تحقیقی مرکز اور ایک سیٹلائٹ گراؤنڈ سٹیشن بنانے کا عزم ظاہر کیا۔
اس وقت امریکہ میں ٹرمپ ہی کی حکومت تھی جنہوں نے ڈنمارک پر دباؤ ڈالا کہ گرین لینڈ میں چینی موجودگی ناپسندیدہ ہے۔ یہ دباؤ کام کر گیا اور چینی کوششیں مسترد کر دی گئیں۔
اسی وقت سے ٹرمپ گرین لینڈ میں دلچسپی لینے لگے ہیں اور وہ سنجیدگی سے اس کا بار بار اعلان کر رہے ہیں۔
گرین لینڈ اور ماحولیاتی تپش
دنیا کو خدشہ ہے کہ ماحولیاتی تپش کی وجہ سے قطبین پر واقع برف پگھل رہی ہے جس سے سمندر چڑھ رہے ہیں۔ اس سے باقی دنیا پر جو سنگین اثرات مرتب ہوں گے، وہ اپنی جگہ، لیکن گرین لینڈ کو برف پگھلنے سے فائدہ ہو گا کیوں کہ گرین لینڈ کا 80 فیصد رقبہ برف کی تین کلومیٹر موٹی تہہ اور گلیشیئروں کے نیچے دبا ہوا پڑا ہے۔ 1912 میں یہیں سے ایک برفانی تودے نے ٹوٹ کر بحرِ اوقیانوس میں ٹائٹینک کو ڈبو دیا تھا۔
اس برف کے پگھلنے سے جزیرے کا بڑا حصہ قابلِ استعمال ہو جائے گا اور وہاں کان کنی کی جا سکے گی اور زرعی اور صنعتی اور تجارتی زون قائم کیے جا سکیں گے۔
گرین لینڈ پر دنیا بھر کی نظر
نقشے پر دیکھیں تو گرین لینڈ امریکہ اور یورپ کے بیچوں بیچ واقع ہے اور اس کا ایک حصہ قطبِ شمالی کے قریب ہے۔
روس قطبِ شمالی میں تیزی سے عسکری طاقت میں اضافہ کر رہا ہے۔ ایک ریٹائرڈ امریکی جنرل ٹیرنس او شاگنسی نے 2020 میں کہا تھا کہ اگر روس نے امریکہ پر حملہ کیا تو وہ قطبِ شمالی کے راستے سے ہو گا۔
لیکن عسکری کے علاوہ اس خطے کی تجارتی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ 2022 میں چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادی میر پوتن کی بیجنگ میں ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے ’پولر سلک روٹ‘ یا ’قطبی شاہراہِ ریشم‘ کو ڈیولپ کرنے کے معاملے پر مذاکرات کیے تھے۔
بعض ماحولیاتی اندازوں کے مطابق 2050 میں قطبِ شمالی اس حد تک پگھل جائے گا کہ وہاں بڑے پیمانی پر جہاز رانی ممکن ہو جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو چین کے لیے یورپ کا راستہ ساڑھے چار ہزار کلومیٹر کم ہو جائے گا، ظاہر ہے کہ اس کے دنیا بھر پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
ظاہر ہے کہ امریکہ اور خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ کو چین اور روس کا قطبِ شمالی میں گٹھ جوڑ اور مشترکہ تجارتی سرگرمیاں ایک آنکھ نہیں بھا رہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے آتے ہی گرین لینڈ کے بارے میں تابڑ توڑ بیانات دینا شروع کر دیے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس تمام تر بین الاقوامی تزویراتی بزکشی کے کھیل میں خود گرین لینڈ کے 57 ہزار باشندوں کو بھی سنا جائے گا یا نہیں؟