اسرائیل نے بدھ کو غزہ میں نئے زمینی آپریشنز کا اعلان کیا ہے اور فلسطینی عوام کو ’آخری وارننگ‘ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ قیدی واپس کریں اور حماس کو اقتدار سے ہٹائیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جنوری میں ہونے والی فائر بندی کے بعد اس ہفتے اسرائیلی فورسز نے اب تک کی سب سے ہلاکت خیز فضائی بمباری کر کے سینکڑوں افراد قتل کر دیے۔
غزہ میں محکمہ صحت کے ایک عہدیدار کے بقول جمعرات کو اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 70 فلسطینی جان سے گئے اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق، اسرائیلی حملوں نے غزہ کی پٹی کے شمالی اور
جنوبی علاقوں میں کئی گھروں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
بدھ کو، اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ اس کے دستوں نے وسطی اور جنوبی غزہ میں زمینی آپریشن دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ یہ زمینی کارروائی ایک ایسے وقت میں شروع کی گئی جب اس سے ایک دن پہلے400 سے زائد فلسطینی فضائی حملوں میں مارے گئے۔
محکمہ صحت کے عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’منگل سے لے کر اب تک، اسرائیلی فضائی حملوں میں 510 فلسطینی مارے گئے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں‘۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان کی کارروائیاں نیٹزاریم کوریڈور میں اسرائیلی کنٹرول کو مزید وسعت دے رہی ہیں۔ یہ کوریڈور غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے اور اس علاقے میں کی جانے والی تازہ کارروائیوں کا مقصد شمالی اور جنوبی غزہ کے درمیان ایک جزوی بفر زون قائم کرنا ہے۔
حماس نے کہا کہ اسرائیلی زمینی آپریشن اور نیٹزاریم کوریڈور میں داخلہ ’نئی اور خطرناک خلاف ورزی‘ ہے جو کہ دو ماہ پرانی فائر بندی کے معاہدے کو توڑنے کے مترادف ہے۔
اپنے بیان میں، گروپ نے فائر بندی معاہدے کے لیے اپنی وابستگی کو دہرایا اور ثالثوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ جمعرات کو رائٹرز سے بات کرتے ہوئے، حماس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ثالثوں نے فریقین کے
درمیان سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں، لیکن ’اب تک کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی‘ ہے۔
اسرائیل کی مسلسل بمباری کے باوجود، جس کے رد عمل میں عالمی حکومتیں فائر بندی برقرار رکھنے کے لیے زور دے رہی تھیں، بدھ کو غزہ کی سڑکوں پر نقل مکانی کرنے والے شہریوں کی طویل قطاریں نظر آئیں۔
خوفزدہ خاندان، خاص طور پر چھوٹے بچوں کے ہمراہ، شمالی غزہ سے جنوبی علاقوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں، کیونکہ اسرائیل نے شہریوں کو ’لڑائی والے علاقے‘ چھوڑنے کے لیے کہا تھا۔
ریڈ کراس کے فیلڈ ہسپتال کے سینئر میڈیکل آفیسر فرید اولا نے کہا کہ حالیہ بمباری نے گذشتہ دو ماہ کی نسبتاً خاموشی کو ختم کر دیا ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’اب ہمیں فضا میں خوف و ہراس محسوس ہو رہا ہے۔۔۔ اور ہم ان چہروں پر درد اور تباہی دیکھ سکتے ہیں جن کی ہم مدد کر رہے ہیں۔‘
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ایک ویڈیو بیان میں ’غزہ کے رہائشیوں‘ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’یہ آپ کے لیے آخری وارننگ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ امریکی صدر کے مشورے پر عمل کریں، قیدی واپس کریں اور حماس کو ہٹائیں، تب آپ کے لیے دوسرے مواقع کھل سکتے ہیں، بشمول ان افراد کے لیے دوسرے ممالک میں جانے کے امکانات جو وہاں رہنا نہیں چاہتے۔‘
اسرائیلی وزیر دفاع کا اشارہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک حالیہ بیان کی طرف تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا ’ایک خوبصورت مستقبل غزہ کے لوگوں کا منتظر ہے، لیکن اگر آپ نے قیدی رکھے تو آپ مارے جائیں گے!‘
2023 میں حماس کے حملے میں 251 اسرائیلیوں کو قیدی بنایا گیا تھا، جن میں سے اسرائیلی فوج کے مطابق 58 اب بھی حماس کی قید میں ہیں، جن میں سے 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاحال، حماس نے اسرائیلی بمباری کا فوجی ردعمل نہیں دیا، تاہم گروہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ وہ فائر بندی کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔
حماس کے ترجمان طاہر النونو نے کہا: ’ہم نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے، لیکن ہمارا مؤقف ہے کہ پہلے سے طے شدہ معاہدے میں کسی نئی شرط کی ضرورت نہیں۔ ہم اسرائیل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر مذاکرات کے دوسرے مرحلے کا آغاز کرے۔‘
19 جنوری کو ہونے والے فائر بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کی مدت مارچ کے آغاز میں ختم ہو گئی تھی اور اب مذاکرات اس نکتے پر رک گئے ہیں کہ آگے کیسے بڑھا جائے۔
اسرائیل اور امریکہ چاہتے ہیں کہ فائر بندی کے پہلے مرحلے کو مزید بڑھایا جائے، تاہم حماس نے اس مؤقف کو مسترد کر دیا ہے۔
اس سے دوسرا مرحلہ شروع ہونے میں تاخیر ہو گی، جس کا مقصد ایک مستقل فائر بندی، اسرائیلی افواج کا غزہ سے انخلا اور باقی قیدیوں کی فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہائی تھا۔
سیاسی تجزیہ کار اور فلسطینی اتھارٹی کے سابق وزیر غسان خطیب نے کہا: ’دوسرے مرحلے کی طرف بڑھنا اسرائیل کے لیے کسی آپشن کی طرح نظر نہیں آتا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’وہ دوسرے مرحلے کو پسند نہیں کرتے کیونکہ اس میں مسلح تنازعے کا خاتمہ شامل ہے، وہ بھی مقصد کے حصول یعنی حماس کو ختم کیے بغیر۔‘
اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکہ نے حماس کی جانب سے پہلے مرحلے میں توسیع کو مسترد کرنے کو مزید قیدیوں کی رہائی سے انکار کے طور پر پیش کیا ہے۔
شدید اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کے چند باقی ماندہ فعال ہسپتالوں میں زخمیوں کی بڑی تعداد پہنچ گئی اور دو ماہ کی نسبتاً خاموشی کے بعد مکمل جنگ دوبارہ شروع ہونے کے خدشات بڑھ گئے۔
ایجنسی نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے پروجیکٹ سروسز کا ایک ملازم جان سے گیا، جبکہ کم از کم پانچ دیگر افراد اس وقت زخمی ہوئے جب وسطی شہر دیر البلح میں اقوام متحدہ کی ایک عمارت کو نشانہ بنایا گیا۔
غزہ کی وزارت صحت نے اس حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا، جبکہ اسرائیلی فوج نے کمپاؤنڈ پر حملہ کرنے کی تردید کی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گویتریش نے اس واقعے پر ’صدمے‘ کا اظہار کرتے ہوئے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیلی وزارت خارجہ نے بعد میں اعلان کیا کہ ’واقعے کے حالات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں‘ اور ’بلغاریہ کے شہری، جو کہ اقوام متحدہ کے کارکن تھے، کی موت پر افسوس‘ کا اظہار کیا۔ وزارت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’اس واقعے کا اسرائیلی فوج کی کسی کارروائی سے کوئی تعلق نہیں۔‘
حماس نے اس واقعے کو ’اسرائیل کی منظم پالیسی کا حصہ قرار دیا، جس کے تحت عام شہریوں اور امدادی کارکنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ انہیں دہشت زدہ کیا جا سکے اور ان کے انسانی امداد کے فرائض کی انجام دہی روکی جا سکے۔‘
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کہا کہ وہ ’اس واقعے پر شدید صدمے میں ہیں‘ اور یہ کہ ’اس کی شفاف تحقیقات ہونی چاہییں اور ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔‘
ہزاروں اسرائیلی مظاہرین مقبوضہ بیت المقدس میں جمع ہوئے اور وزیراعظم بن یامین نتن یاہو پر قیدیوں کی حفاظت کو نظر انداز کرتے ہوئے غزہ پر بمباری دوبارہ شروع کرنے کا الزام لگایا۔
67 سالہ نہاما کریسلر نے کہا: ’ہم انہیں یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ سب سے اہم مسئلہ قیدیوں کی واپسی ہے۔‘
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا کہ ’اسرائیلی حملے بہت سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی مشکلات کے خاتمے کی امیدوں کو چکنا چور کر رہے ہیں۔‘
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے غزہ پر نئے حملوں کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا۔
یہ جنگ حماس کے 2023 کے حملے کے بعد شروع ہوئی، جس میں اسرائیلی اعدادوشمار کے مطابق 1,218 اسرائیلی جان سے گئے۔
غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بصل نے بدھ کی رات بتایا کہ پیر سے منگل کی رات کے دوران شروع ہونے والی شدید اسرائیلی بمباری میں کم از کم 470 افراد جان سے گئے۔
ایجنسی نے رپورٹ دی کہ شمالی غزہ میں ایک ہی خاندان کے 14 افراد ایک اسرائیلی حملے میں مارے گئے۔