20 جولائی کو خیبر پختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں انتخابات ہونے جارہے ہیں جس میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ بہت سے آزاد امیدواروں نے بھی حصہ لیا ہے، جس کے لیے انتخابی مہم زور و شور سے جاری ہے۔
گھر گھر جاکر ووٹ پکے کرنے کے علاوہ مذہبی و سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے مسجدوں کا رخ کیا ہے جہاں وہ لوگوں کو اپنی پارٹی کے آئین اور منشور کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔
بعض علما اس کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور ان کا کہنا ہے کہ ’مسجدیں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور قرآن و سنت کی تعلیم کے لیے ہیں، سیاسی افکار کے فروغ کے لیے نہیں‘ جبکہ بعض علما کا کہنا ہے کہ ’مسجد اور منبر اسلام کے آغاز سے ہی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھے، یہیں سے لوگوں کو اسلام کے دفاع کے لیے آمادہ کیا جاتا تھا۔‘
جماعت اسلامی کے نائب امیر مولانا عبد المجید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مدینے کی اسلامی ریاست کے مرکز مسجد نبوی کا تصور کیجیے جہاں کارہائے سیاست کے تمام امور سرانجام پاتے تھے۔ جہاں صحابہ کرام کے درمیان سیاسی مسائل پر بحث و مباحثے ہوا کرتے تھے۔ جہاں مسجد اور سیاست ہم آہنگ تھے۔ جہاں یہ آوازیں نہیں اُٹھتی تھیں کہ دنیا کی باتیں مسجد سے باہر جاکر کرو۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’مسجد نبوی کی کسی دیوار پر یہ نہیں لکھا تھا کہ یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے کیونکہ اسلام میں دین اور سیاست کی جدائی کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام جس سیاست کا تصور دیتا ہے، وہ دین کی بنیاد پر ہے۔ یعنی لوگوں کے امور کی دیکھ بھال قرآن و سنت کی روشنی میں۔ یہ ایک مقدس چیز ہے، یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے۔ ہم خود بھی مسجدوں میں لوگوں کو اپنے پارٹی کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور دیگر پارٹیوں والے بھی دیتے ہیں۔‘
علاقے کے رہائشی کچھ لوگ بھی اسے اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ضلع باجوڑ کی ایک سیاسی و سماجی شخصیت ضیا الحق صافی کا کہنا ہے کہ ’پختونوں کا حجرہ اور مسجد ایک ہی ہوتا ہے۔ ہمارے علاقے میں جب بھی کوئی مسئلہ آتا ہے تو اس کے حل کے لیے ہمارے علاقے کے بزرگ مسجد میں جمع ہو جاتے ہیں، جس میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ ہوتے ہیں اور اس کے لیے ایک مثبت حل نکالتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہمارے علاقے میں الیکشن کے دوران سیاسی جماعت کا کوئی امیدوار مہم کے لیے آتا ہے تو ہم خود اس کو مسجد لے جاتے ہیں تاکہ وہ تمام گاؤں والوں کے سامنے اپنی پارٹی کے منشور سے لوگوں کو آگاہ کرسکے۔‘