انڈیا کے سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا ہے کہ پاکستان سے دوستی کے لیے انڈیا میں عوامی حمایت مشکل ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’دونوں ملکوں کی سیاست ایک دوسرے کو تکلیف پہنچا کر چلتی ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں سلمان خورشید نے پاکستان سے تعلقات، انڈین سیاست اور کانگریس جماعت کے مستبقل کے حوالے سے کھل کر گفتگو کی۔
سلمان خورشید نے کانگریس کے دور اقتدار میں بھارت کی خارجہ پالیسی اور موجودہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں خارجہ پالیسی کی اثر انگیزی پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان سے ہمارے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ کئی مرتبہ جنگ بھی ہوئی تاہم ہم نے کبھی نہیں کہا کہ بھارت دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔‘
بقول سلمان خورشید: ’چین سے بھی ہمارے مسائل تھے، اس کے لیے بھی لفظ دشمن استعمال نہیں کیا۔ پاکستان کے لیے ضرور کیا جب حالات بہت خراب ہوئے۔ دشمن کا لفظ ایران کے لیے استعمال نہیں کیا۔ افغانستان کے لیے نہیں کیا۔ بنگلہ دیش کے لیے نہیں کیا۔ بھوٹان کے لیے نہیں کیا۔ سری لنکا کے لیے نہیں کیا۔‘
انہوں نے انڈیا اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ ’جب پاکستان میں زلزلہ آیا تو ہم نے مدد کی تھی اور وہ بھی مدد کی پیش کش کرتے رہے ہیں۔
’ہم نے وہ بھی دن دیکھے ہیں جب بغیر اعلان کے مودی صاحب نواز شریف کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ کہتے ہیں پاکستان سے دوستی کرتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ نہیں کرسکتے۔
’وہ ہر چیز کو ایک پیمانے پر دیکھتے ہیں۔ آج میرا اس میں کیا فائدہ ہے اور آج میرا کیا نقصان ہے۔‘
سلمان خور شید نے انڈیا میں پاکستان سے دوستی پر عوامی حمایت کو مشکل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان سے دوستی پر اس ملک میں عوامی حمایت مشکل ہے کیونکہ پاکستان نے ہمیں بہت بار دھوکہ دیا ہے۔ تکلیف پہنچائی ہے۔ نقصان پہنچایا۔
’حالانکہ دنیا میں ہر جگہ دس سال، تیس سال، پچاس سال لڑنے کے بعد دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاتا ہے۔ ہم لوگوں نے کئی مرتبہ بڑھایا۔ تاشقند میں بڑھایا لیکن وہ ہاتھ چھوٹ جاتا ہے۔ اس کے لیے نہ کوئی انڈیا پر الزام عائد کر سکتا ہے اور نہ ہی یہ کہہ سکتا کہ پاکستان نے کبھی کوشش نہیں کی۔‘
’وہ (پاکستان) ہمیں تکلیف پہنچاتے رہے۔ اس سے ان کی سیاست چلتی رہی ہے۔ ہماری سیاست پاکستان کو تکلیف پہنچانے سے کبھی نہی چلتی تھی مگر بدقسمتی سے آج ہماری سیاست ان (پاکستان) کو تکلیف پہنچا کر چلنے لگی ہے۔
’اگر سیاست ہی پیمانہ رہے گی تو پھر بڑا مشکل ہوگا۔ پوری طرح سے دوستی کا ہاتھ بڑھانا مشکل ہوگا۔ ان کے یہاں بہت بڑی تبدیلی آرہی ہے۔ ان کے یہاں آرمی کے ارتکاز والی انڈسٹریل انٹرپرائز ہے۔ جب تک وہ ختم نہیں ہوگا یا ایسا کوئی شخص نہیں آئے گا جو اس کو ختم کرے تو کہ مشکل ہے کہ تب تک پاکستان سے تعلقات بہتر ہوں۔‘
’کانگریس ختم نہیں ہو رہی‘
سلمان خورشید نے سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے ’ختم‘ ہونے کے تاثر کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم نہیں مانتے کہ ہم مٹ جائیں گے‘۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا: ’اس ملک میں کانگریس کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ ہم نہیں مانتے کہ ہم مٹ جائیں گے بلکہ ہم باقی رہیں گے۔ بی جے پی نے ہزار کوششیں کرلیں ہمیں ختم کرنے کی مگر ہم اب بھی باقی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’اگر بدقسمتی سے کانگریس کا اس ملک سے صفایا ہو گیا تو یہ ملک کا نقصان ہوگا۔ یہ ملک ایسا نہیں رہے گا جیسا ہمارے بزرگوں نے سوچا تھا۔‘
2014 میں انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حکمران جماعت بننے کے بعد ملک کا اندرونی اور خارجی سیاسی کردار تیزی سے بدلتا جا رہا ہے۔
بدلے ہوئے حالات کا سب سے زیادہ اثر کانگریس اور اس کے ان نظریات پر پڑا جس کا ہدف باہمی میل ملاپ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے۔
گذشتہ آٹھ سالوں میں ہندو قومیت پسند لیڈر نریندر مودی کی عوامی مقبولیت کے سامنے کانگریس کا رنگ پوری طرح پھیکا پڑ چکا ہے۔
رہی سہی کسر ملک کے مختلف سیاسی انتخابات میں کانگریس کی یکے بعد دیگرے شکستوں سے نکل گئی اور وہ مسلسل حاشیے پر جاتی نظر آرہی ہے۔
سلمان خورشید کانگریس کے اس بدترین عہد کو تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’جو بھی ہو رہا ہے وہ پارٹی کے لیے نقصان دہ ہے‘ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’کانگریس کے لیے یہ ایک ’چرننگ پیریڈ‘ (چکی میں پسنے کا دور) ہے، جس سے وہ جلد ابھر کر آئے گی۔‘
2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں ناکامی کے بعد کانگریس نہ صرف اقتدار سے دور ہے بلکہ روز بہ روز اپنے حامیوں کو بھی کھو رہی ہے۔
بھارت میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کے دوران کانگریس کے لیے اپنا وجود محفوظ رکھنا مشکل ہوگیا ہے، خود پارٹی کے سینیئر کارکنان اور قائدین کانگریس سے دور ہو رہے ہیں۔
تازہ اضافہ ملک کی مشہور سیاسی شخصیت غلام نبی آزاد ہیں، جنہوں نے کانگریس کے گاندھی کنیکشن پر نہ صرف شدید تنقید کی بلکہ وہ خود اپنی ریاست کشمیر کے لیے خصوصی درجہ کی بحالی کو ناممکن قرار دے کر برسر اقتدار پارٹی کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔
سلمان خورشید نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ کانگریس کے ان کمزور ترین لمحات پر تفصیل سے گفتگو کی تاہم غلام نبی آزاد اور حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی پر براہ راست سوالات لینے گریز کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’پارٹی کے تعلق سے اگر کہا جائے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ بی جے پی کی لاکھ کوششوں کے باوجود کانگریس ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ اپنی احیا کی پوری کوشش کر رہی ہے۔‘
انڈیا کی سب سے پرانی سیاسی جماعت کانگریس کے پارٹی الیکشن 17 اکتوبر کو منعقد ہوں گے۔ اس ضمن میں کانگریس کی جانب سے باقاعدہ ایک اعلامیہ جمعرات کو جاری ہوا ہے۔
اپنی سیاسی اور نظریاتی بقا کے دوراہے پر کھڑی کانگریس کا یہ پہلا پارٹی الیکشن ہو گا جس میں گاندھی خاندان کا کوئی فرد امیدوار نہیں۔
سونیا گاندھی طویل ترین پارٹی صدارت کے بعد ریٹائر ہو رہی ہیں اور ان کے بیٹے راہل گاندھی اس وقت ایک لانگ مارچ کا حصہ ہیں، جس کا نعرہ ہے ’بھارت جوڑو یاترا۔‘
راہل کیرالہ ریاست سے ہوتے ہوئے 29 ستمبر کو کرناٹکا پہنچیں گے اس لیے وہ دہلی میں اپنے کاغذات نامزدگی داخل کروانے کے لیے بذاتِ خود موجود نہیں ہوں گے۔
انڈیا کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کانگریس پارٹی کے رہنما ششی تھرور اور راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوٹ کو کانگریس کی صدارت کے دو مضبوط ترین امیدوار قرار دے رہے ہیں۔
’انڈیا ٹو ڈے‘ نامی اخبار نے تو یہاں تک رپورٹ کیا ہے کہ گہلوٹ نے سونیا گاندھی کے ساتھ ملاقات کے بعد راجستھان کی وزارت اعلیٰ کے لیے موجودہ سپیکر سی پی جوشی کا نام تجویز کر دیا ہے۔
اسی طرح ’دا وائر‘ نامی اخبار نے ششی تھرور کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ انہوں نے کانگریس پارٹی کے الیکشن پینل چیف سے ملاقات کی ہے تاکہ پارٹی صدارت کے لیے درکار طریقہ کار سے آگاہی حاصل کر سکیں۔
بی جے پی کی وجہ سے کانگریس کو نقصان نہیں ہوا
انٹرویو کے دوران سلمان خورشید نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’کانگریس کو بی جے پی سے نقصا ن نہیں ہوا۔
سلمان خورشید یہ دعویٰ اس وقت کر رہے ہیں جب کانگریس مسلسل بی جے پی کے نشانے پر ہے اور یکے بعد دیگرے اسے بی جے پی کے ہاتھوں شکست مل رہی ہے۔
سلمان نے ’زوال پذیر کانگریس‘ کے حوالے سے کہا: ’زوال ایک فیصلہ کن لفظ ہے۔ ایک بیانیے جیسا ہے۔ یقیناً اس بات میں اختلاف نہیں ہے کہ آج سے دس سال پہلے ہم جس حالت میں تھے آج وہاں نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کے باوجود بی جے پی کے فٹ پرنٹ کے بعد سب سے بڑا فٹ پرنٹ ہمارا ہے اور یہ بڑھتا رہے گا۔ اس سے پہلے بھی ہم نے بی جے پی کو ہٹایا تھا اور یوپی اے کی حکومت دس سال تک رہی۔‘
انہوں نے کہا: ’یہ بات درست ہے کہ گذشتہ آٹھ سال میں ہم پیچھے ہٹتے چلے گئے مگر بی جے پی کی وجہ سے نہیں بلکہ بہت ساری پارٹیاں ہیں جن سے ہماری اچھی ملاقاتیں رہی ہیں۔ اتحادی بھی ہیں۔ انہوں نے مقامی پارٹی بن کر ہماری زمین چھینی ہے۔‘
اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’جیسے بنگال میں بی جے پی نے ہماری زمین نہیں چھینی بلکہ ہماری ہی پارٹی سے نکلی ممتا بینر جی نے زمین حاصل کی۔ دیگر ریاستوں میں بھی ہماری ہی پارٹی سے نکلے ہوئے لیڈروں نے زمین چھینی ہے۔ دہلی میں کیجریوال نے ہم سے زمین چھینی مگر وہ بی جے پی کو نہیں گئی۔ اب دیکھیے آگے کیا ہوتا ہے؟
طاقت سے محرومی
سلمان خورشید نے کہا کہ ’میرا سیاسی تصور آئیڈیاز پر مشتمل ہے۔ جب تک میرے پاس جنبش ہے اور میں اپنے آئیڈیا کو بیان کرسکتا ہوں اور لوگوں تک لے جاسکتا ہوں، میری طاقت ختم نہیں ہوتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’طاقت سے محرومی اسے محسوس ہوتی ہے جو سیاست کو طاقت سمجھتے ہیں۔ اپنی بات سے آپ جب کسی کو متاثر کرتے ہیں تو اصل طاقت ہے۔ پولیس اور آرمی کے سہارے کسی پر طاقت چلانا الگ ہے جو آنی جانی چیز ہے۔‘
کانگریس عوام سے کٹ گئی تھی
کانگریس کے رہنما نے یہ اعتراف کیا کہ ہماری پارٹی عوام سے کٹ گئی تھی۔ انہوں نے کہا: ’فی الحال کانگریس سمجھنے کی کوشش کررہی ہے کہ اگر ہم عوام سے الگ ہوئے ہیں تو اس خلا کو کیسے پر کریں؟‘
’ایک بار پھر سے عوام سے کیسے جڑیں؟ اس میں کئی پیچیدگیاں ہیں، مسائل ہیں جو بی جے پی نے کھڑے کیے ہیں۔ جیسے ریزرویشن، ریزرویشن در ریزوریشن، جیسے کلچر اور نیشنل ازم کا ایشو، جیسے فیڈرل ازم ہے۔‘
سلمان خورشید نے یہ ظاہر کیا کہ ’بی جے پی نے ان مسائل کو ایسے پیش کیا جیسے کانگریس اس ملک کی دشمن ہو، وطن دوست نہ ہو۔‘
کشمیر کا خصوصی درجہ
جب 2019 میں بی جے پی نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر دیا تو اس وقت کانگریس نے اس اقدام پر غیر آئینی ہونے کا الزام لگایا، مگر بعد ازاں کھل کر کشمیر کا خصوصی درجہ بحال کرنے کی تحریک کا ساتھ نہیں دیا۔
سلمان خورشید نے اس قضیے کو سلجھاتے ہوئے کہا کہ ’ابھی ہم اس مرحلے میں نہیں ہیں جہاں کھل کر موقف لے سکیں۔ اسٹینڈ لے سکیں کیونکہ اس سے ہمارا صفایا ہوجائے گا۔‘
ان کی مراد ان ووٹرز کی جانب سے کانگریس مخالف رویے کا خوف تھا جو ہندو قومیت پسند نظریات سے قریب ہیں اور اکثریت میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’بہت سارے ایسے ایشوز ہیں جس میں ہمیں واضح موقف لینا ہے۔ تاہم واضح موقف لیں اور ہم بالکل صاف ہوجائیں، جیسے کشمیر کے آرٹیکل 370 کا مسئلہ تھا، تو یہ بھی صحیح نہیں ہے۔‘
’ہم ایسی پوزیشن لیں جس میں ان کا بھی فائدہ ہو اور ہم بھی مضبوط ہوسکیں۔ یہ ایک توازن کا بڑا کام ہے۔ اس پر ہم سب سوچ رہے ہیں اور امید ہے کہ اس سے کہیں نہ کہیں حل نکل کر آئے گا۔‘
کانگریس کی مسلم دوستی
بی جے پی نے کانگریس پر مسلمانوں کو خوش کرنے کے اتنے الزامات لگائے کہ اب وہ کانگریس کے لیے برے خواب بن چکے ہیں۔
سلمان خورشید کہتے ہیں ’اگر یہی وجہ ہے اور اگر ہم پر صرف یہ الزام ہے کہ ہم مسلم دوست ہیں تو یہ بی جے پی کو چھوٹا کردیتا ہے۔‘
بقول سلمان خورشید: ’انہیں نہیں دکھتا کہ ہم کچھ اچھا کام کرسکتے ہیں۔ ہم انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم سب لوگوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔
’کانگریس میں اکثریت ہندو مذہب کی تھی۔ جس مذہب کے بی جے پی میں لوگ ہیں۔ ایسا کیسے مان لیں کہ ہمارے لیڈر آدھے مسلمان تھے، آدھے ہندو تھے اور بی جے پی کے سارے رہنما پورے ہندو تھے۔‘
مسلمان کانگریس کے ساتھ
انہوں نے مزید کہا کہ ’سچی بات یہ ہے کہ یہ (مسلم اقلیت کے لیے بہبود کی کانگریسی پالیسیوں پر بی جے پی کے اعتراضات) ایک بنیادی اور نازک ایشو تھا جسے غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔‘
سلمان خورشید کے مطابق: ’بی جے پی نے اب اس کو استعمال کیا تاہم اسے مقامی پارٹیوں نے زیادہ استعمال کیا۔ انہوں نے اپنے علاقوں میں کانگریس سے مسلمانوں کو چھیننے کی کوشش کی، پھر بھی ہم مسلمانوں کو پارٹی میں واپس لائے۔
’آج بھی ہماری پارٹی کے جو ارکان پارلیمنٹ میں ہیں وہ بڑی حد تک مسلمانوں کے ووٹ کی وجہ سے ہیں۔ آج بی جے پی نے اسے (مسلمانوں کو خوش کرنے کو) ایک گھناؤنی تصویر بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ آج وہ کامیاب ہیں۔ دس سال بعد دیکھیں گے جو تصویر پیش کی گئی تھی کیا وہ تصویر زندہ ہے یا وہ مرچکی ہے؟‘
نریندر مودی پہلے ہندو وزیراعظم نہیں ہیں
سلمان خورشید کا کہنا ہے کہ ’نریندر مودی پہلے ہندو نہیں ہیں جو وزیراعظم بنے ہیں۔ جواہرلال نہرو، لال بہادر شاستری، دیوگوڑا اور واجپائی ہندو تھے۔
’ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کس نے کس کو بانٹا؟ ہم یعنی کانگریس والے ماضی کی تکالیف کا رونا نہیں روتے بلکہ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یا تو ہم اسی پر توجہ دیتے رہیں کہ 1947 میں بٹوارہ کس نے کرایا؟ یا آج ہم دنیا کے سامنے یہ پیش کریں کہ ہم یہ ہیں۔
’ہم اپنی تاریخ کو لے کر روتے نہیں رہیں گے۔ یہی ہمارے آئین میں، یہی ہمارے کانگریس میں ایک بنیادی چیز ہے، جو کہ بی جے پی میں نہیں۔ ہم مودی کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے کچھ نقصان ہو رہا ہے۔‘
آرٹیکل 370 کی بحالی
کانگریس کے اقتدار میں لوٹنے کے بعد کیا کشمیر کو اس کا چھینا ہوا خصوصی درجہ واپس ملے گا؟
اس سوال پر سلمان خورشید نے طویل تمہید باندھی اور کہا کہ ’اس وقت دیکھا جائے گا جب ہم اقتدار میں آئیں گے۔‘
کشمیریوں کا نام لیے بغیر سلمان خورشید نے کہا کہ ’جو بھی ہے بنیادی سوال ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو ہمارے ملک کے حصہ ہیں اور بے چین ہیں۔ غیر مطمئن ہیں۔ وہ خودمختاری چاہتے ہیں؟ آزادی چاہتے ہیں؟ کسی اور سے جڑنا چاہتے ہیں؟ یہ کچھ سوالات ہیں لیکن اس کا جواب کسی کو نہیں پتہ۔‘
’وقت گزرتا ہے۔ بعد میں نظریہ بدلتا ہے۔ ایک نئی سوچ ہوتی ہے۔ جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو اس وقت حالات کیا ہوں گے اور یہ جو تاثرات ہیں جس کی وجہ سے 370 تھا اور جھگڑے ہوئے وہ تاثرات کس شکل میں زندہ رہیں گے؟ وہ کیسے ہوں گے؟ وہ تو ہم اسی وقت بتائیں گے۔‘
’آج صرف بیٹھ کر کہہ دیں اور کل زمینی تجربہ الگ ہو تو کوئی فائدہ نہیں اس کا۔‘