پنجاب پولیس نے ڈکیتی میں ملوث ایک ایسے ملزم کو گرفتار کیا ہے جس کا کہنا ہے کہ اس نے پولیس فورس میں بھرتی ہونے کے لیے آٹھ لاکھ روپے کا ڈاکہ ڈالا، تاہم پولیس کے مطابق اس بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔
پولیس کے مطابق لاہور کے علاقے غالب مارکیٹ میں شیخوپورہ کے ایک تین رکنی گینگ نے ایک کمپنی کے دفتر میں کچھ دن پہلے اسلحے کے زور پر ڈکیتی کی، جس میں ملوث دو افراد کو گرفتار کیا گیا۔
ان میں سے ایک نے دوران تفتیش بیان دیا کہ وہ پنجاب پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہونا چاہتا تھا تاہم اسے معلوم ہوا کہ اس کے لیے تین لاکھ روپے لگیں گے تو اس نے پیسے حاصل کرنے کے لیے دوستوں کے ساتھ مل کر ڈکیٹی کی۔
معاملہ ہے کیا؟
شیخوپورہ کے رہائشی 19 سالہ مہران طارق نامی ملزم نے پولیس اور میڈیا کو دیے گئے بیان میں کہا کہ وہ میٹرک پاس ہے اور پولیس میں بھرتی ہوکر ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتا تھا۔
ملزم کے بقول پولیس میں بھرتی ہونے کی خواہش لے کر وہ ایک مقامی اکیڈمی میں تیاری کے لیے گیا جہاں اسے معلوم ہوا کہ کانسٹیبل بھرتی ہونے کے لیے تین لاکھ روپے لگتے ہیں۔
جب یہ بات اس نے اپنے والد کو بتائی، جو محنت مزدوری کرتے ہیں، تو انہوں نے بیٹے کے لیے ایک لاکھ روپے کا بندوبست کردیا مگر دو لاکھ کی مزید ضرورت تھی۔
مہران کے بقول ان کے قریبی دوست مقدس اور کاشف نے انہیں مشورہ دیا کہ پیسے حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر ڈکیٹی کریں جس سے وہ دو لاکھ فوری حاصل کرسکتے ہیں۔
لہذا تینوں دوستوں نے منصوبہ بنایا اور لاہور آگئے جہاں انہوں نے چند دن پہلے غالب مارکیٹ میں کھانے کی اشیا کی فراہمی کرنے والی ایک کمپنی کے دفتر میں رات کے وقت ڈکیتی کی۔
پولیس کے مطابق ملزمان دوران ڈکیتی آٹھ لاکھ روپے نقدی اور دیگر سامان لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے، تاہم نے پولیس ان میں سے ایک، مقدس کو گرفتار کر لیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد جب پولیس نے مہران طارق کو گرفتار کیا اور جسمانی ریمانڈ لیا تو ملزم سے دو لاکھ روپے اور پستول برآمد ہوا۔
انچارج انویسٹی گیشن تھانہ غالب مارکیٹ عبدالغفور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ یہ گروہ پہلے شیخوپورہ میں چھوٹی چھوٹی وارداتیں کرتا تھا لیکن لاہور میں بڑی ڈکیتی پہلی بار کرنے آئے تھے۔
ان کے مطابق ڈکیتی کے بعد تینوں ملزم شیخوپورہ فرار ہوگئے تھے، مگر پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ان کا تعاقب کیا اور چند دن بعد ایک ایک کر کے تین میں سے دو کو گرفتار کر لیا۔
پولیس تیسرے ملزم کاشف کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔
جب تفتیشی افرس عبدالغفور سے مہران کے پولیس میں بھرتی کے بیان کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’جرائم کرنے والے پولیس میں کیسے بھرتی ہوسکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ملزم بھرتی کے لیے تین لاکھ روپے درکار ہونے کی جو بات کر رہا ہے وہ درست نہیں کیونکہ پولیس بھرتی میں تو مجوزہ طریقہ کار محکمانہ ہوتا ہے جس کی چند سو روپے فیس ادا کر کے ذہنی اور جسمانی امتحان میں کامیابی کے بعد بھرتی ہوتی ہے۔‘
عبدالغفور کے بقول اس بیان کی کوئی اہمیت نہیں اور جب کوئی بھی ملزم پولیس کی گرفت میں آتا ہے تو وہ ’ایسے ہی انوکھے بیان دے کر بے گناہ اور مظلوم بننے کا ڈراما کرتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان نے واردات میں ملوث ہونے کا اقبال جرم بھی کر لیا اور ان سے پیسے اور اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے تو انہیں قانون کے مطابق سزا ملے گی۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ عام طور پر لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ نوکریاں پیسے دے کر ملتی ہیں تاہم محکمہ پولیس میں بھرتی کا عمل سخت ہوتا ہے، تمام خواہش مند امیدوار پہلے متعلقہ دفتر سے مصدقہ معلومات حاصل کرتے ہیں، قوائد وضوابط کا اندازہ لگا کر اپلائی کرتے ہیں اور جو ٹیسٹ میں پاس ہوتے ہیں اور بھرتی کی شرائط پر پورا اترتے ہیں انہی کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’نوکریوں کا جھانسہ دینے والے بہت سے افراد ہیں جو پیسوں کے عوض بھرتی کروانے کا وعدہ کرتے ہیں مگر عوام کو ان پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔‘