ایران میں مبینہ طور پر نامناسب انداز میں حجاب پہننے کے الزام میں پولیس کی زیر حراست 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف مظاہروں میں شدت کے بعد ایرانی فوج نے جمعے کو کہا ہے کہ وہ سلامتی اور امن کو یقینی بنانے کے لیے ’دشمنوں کا مقابلہ‘ کرے گی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فوج نے کہا کہ ’یہ مایوس کن کارروائیاں اسلامی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے دشمن کی شیطانی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔‘
سرکاری میڈیا کے مطابق مشتعل مظاہرین اور ایرانی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں اب تک 17 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم اوسلو میں قائم ادارے ایران ہیومن رائٹس کے مطابق اس کا اندازہ ہے کہ 31 شہری مارے جا چکے ہیں۔
ایک درجن سے زائد شہروں میں مظاہرین سماجی جبر اور ملک کے بڑھتے ہوئے بحرانوں پر غصے کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ انہیں سکیورٹی اور نیم فوجی دستوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مبصرین کا کہنا ہے کہ ایرانی حکام نے مظاہرین کو روکنے اور ان کے احتجاج پر کریک ڈاؤن کی تصاویر کو بیرونی دنیا تک پہنچنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ کے استعمال پر سخت اور ٹارگیٹڈ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
انسانی حقوق کارکنوں نے خطرے کا اظہار کیا ہے کہ یہ پابندیاں انسٹاگرام کو بھی متاثر کرتی ہیں جس کو اب تک ایران میں بلاک نہیں کیا گیا تھا اور یہ عوام میں بہت مقبول ہے۔
مبصرین کے نزدیک یہ پابندیاں حکام کو مزید جبر کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔
انٹرنیٹ تک رسائی کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے ’نیٹ بلاکس‘ نے موجودہ پابندیوں کو ایران میں نومبر 2019 میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد سب سے سخت قرار دیا ہے۔
واچ ڈاگ کا کہنا ہے کہ موبائل ڈیٹا نیٹ ورکس کو ملک بھر میں معطل کر دیا گیا ہے جب کہ انسٹاگرام اور واٹس ایپ تک رسائی میں بھی شدید علاقائی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
ایران میں اظہار رائے کی آزادی کے گروپ ’آرٹیکل 19‘ کی سینیئر محقق نے اپنے ایک بیان میں کہا: ’یہ پابندی اس سے نمایاں طور پر مختلف ہے جو ہم نے نومبر 2019 میں دیکھی تھی۔ لیکن یقینی طور پر ملک میں بہت ساری رکاوٹیں اور شٹ ڈاؤن ہو رہے ہیں۔‘
مہسا کی موت کی امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ مہسا امینی کی موت کی تحقیقات ہونی چاہییں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائیڈ لائنز پر ایک نیوز کانفرنس میں ایرانی صدر نے کہا کہ ’حکام مہسا امینی کی موت کے حوالے سے وہ کر رہے ہیں جو انہیں کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’میں نے پہلے ہی ان کے اہل خانہ سے رابطہ کیا ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ ہم اس واقعے کی تحقیقات کریں گے۔۔۔ ہماری سب سے بڑی ترجیح ہر شہری کے حقوق کی حفاظت ہے۔‘
انہوں نے امریکہ کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی اور کہا: ’امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں امریکیوں کی موت کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘
ابراہیم رئیسی نے حکام کے ہاتھوں اس طرح کی اموات سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر میں ’ایک ہی معیار‘ پر زور دیا اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مغرب میں ’دہرا معیار‘ ہے۔
مہسا امینی کی موت گذشتہ ہفتے پولیس کی حراست میں ہوئی جب انہیں ملک کی ’اخلاقی پولیس‘ نے مبینہ طور پر حجاب ’غلط طریقے سے پہننے‘ کے الزام میں گرفتار کیا۔ ایرانی پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی اور ان کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی گئی لیکن ان کے اہل خانہ نے اس حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
اقوام متحدہ سے وابستہ آزاد ماہرین کا کہنا ہے کہ رپورٹس کے مطابق ایران کی ’اخلاقی پولیس‘ نے بغیر ثبوت پیش کیے مہسا پر شدید تشدد کیا۔
انٹرنیٹ تک رسائی پر نظر رکھنے والے ایک گروپ نیٹ بلاکس نے کہا ہے کہ مظاہروں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ایران کے سب سے بڑے ٹیلی کام آپریٹر نے جمعرات کو زیادہ تر علاقوں میں ایک بار پھر موبائل انٹرنیٹ بند کر دیا تھا۔
ایک ایسے ملک میں جہاں ریڈیو اور ٹیلی ویژن سٹیشن پہلے ہی ریاست کے کنٹرول میں ہیں اور صحافیوں کو گرفتاری کا خطرہ رہتا ہے، پاسداران انقلاب نے جمعرات کو عدلیہ پر زور دیا کہ بدامنی کے بارے میں سوشل میڈیا پر ’جعلی خبریں اور افواہیں پھیلانے والوں‘ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
انسٹاگرام اور وٹس ایپ، جن کا استعمال مظاہرین کرتے ہیں، کی بندش جمعرات کو بھی جاری رہی۔
وٹس ایپ نے ٹویٹ کیا کہ وہ ایرانیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رکھنے کے لیے کام کر رہا ہے اور اپنی تکنیکی صلاحیت کے اندر رہتے ہوئے اپنی سروس کو جاری رکھنے کے لیے جو کچھ ہوسکا کرے گا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی حکومت نے ’اخلاقی پولیس‘ اور دیگر ایرانی سکیورٹی ایجنسیوں کے رہنماؤں پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’پرامن مظاہرین کو دبانے کے لیے باقاعدہ تشدد کرتے ہیں۔‘
گذشتہ پانچ دنوں کے دوران یہ مظاہرے حکومت کے لیے ایک کھلے چیلنج کی شکل اختیار کر گئے ہیں، جہاں خواتین نے سڑکوں پر اپنے حجاب اتار کر جلائے ہیں اور ایرانیوں نے خود اسلامی جمہوریہ ایران اور آمرانہ نظام کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ مظاہرے 2019 کے بعد سے سب سے زیادہ سنگین ہیں، جب پیٹرول کی قیمت میں حکومت کے اضافے کے خلاف احتجاج شروع ہوا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ہونے والے کریک ڈاؤن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے، جو 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اب تک کا سب سے مہلک تشدد ہے۔
تازہ ترین مظاہرے اسی طرح بڑے پیمانے پر ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ عوام میں ان کی حمایت کہیں زیادہ ہے۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ایرانیوں نے مہسا امینی کی موت اور حکومت کے خواتین کے ساتھ سلوک پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے رواں ہفتے دارالحکومت تہران سمیت کم از کم 13 شہروں میں مظاہروں کی اطلاع دی تھی۔
آن لائن ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے سینکڑوں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔
لندن میں قائم انسانی حقوق پر کام کرنے والے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبر دی ہے کہ حکام نے مظاہرین پر لاٹھی چارج بھی کیا ہے۔
شمالی شہر تبریز سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک نوجوان کو مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کیا۔
ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شمالی خراسان صوبے میں ایک پولیس اہلکار نے مظاہروں میں شامل ایک شخص پر شاٹ گن سے فائر کیا، جو حکومت کے حامی بل بورڈ کو پھاڑ رہا تھا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا گولی لگنے سے وہ زخمی ہوا یا نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران کے سرکاری اور نیم سرکاری ذرائع ابلاغ کے بیانات کی بنیاد پر ایسوسی ایٹڈ پریس کے اعداد و شمار کے مطابق جھڑپوں میں کم از کم نو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جمعرات کو جاری ایک بیان میں پاسداران انقلاب نے بدامنی کا الزام ’ایران کے دشمنوں‘ پر عائد کیا۔
مہسا امینی کے آبائی صوبے کردستان میں صوبائی پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ چار مظاہرین کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔
ایران کے ایک اور شہر کرمانشاہ میں استغاثہ کا کہنا تھا کہ دو مظاہرین ہلاک ہوئے اور ان کا اصرار تھا کہ یہ گولیاں ایران کی سکیورٹی فورسز نے نہیں چلائی تھیں۔
نیم سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق شیراز، تبریز اور مشہد میں ہونے والی جھڑپوں میں پاسداران انقلاب کے تحت رضاکار فورس بسیج سے وابستہ تین افراد ہلاک ہو گئے۔
شمالی صوبے مازندران کے ڈپٹی گورنر روح اللہ سولگی نے بتایا کہ مشتعل ہجوم نے 40 سے زائد سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا یا آگ لگائی اور 76 سکیورٹی اہلکاروں کو زخمی کیا۔
ایران کو ماضی قریب میں مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر معاشی بحران کی وجہ سے جو اس کے جوہری پروگرام کے باعث مغربی پابندیوں کی وجہ سے طویل عرصے سے جاری ہیں۔
شہری حکومتی بدعنوانی اور بدانتظامی کو بھی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔