عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی ایک ٹیم کو کراچی کے سی ویو ساحل پر اتوار کی صبح کو زخمی حالت میں ملنے والی نایاب نسل کی زیتونی مادہ کچھوا بدھ سینڈزپٹ ساحل پر فوت ہوگئی۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ترجمان آصف سندیلو کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک ٹیم سمندر سے ملنے والی اسپنر ڈالفن کو سی ویو ساحل پر سمندر میں چھوڑ کر واپس آرہی تھی کہ ٹیم کو ایک مادہ کچھوا نظرآئی جسے سینڈز پٹ ساحل پر موجود ڈبلیو ڈبلیو ایف ویٹ لینڈ سینٹر لایا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف تحفظ جنگلی حیات کا ایک عالمی ادارہ ہے اور کئی سالوں سے جنگلی حیات پر کام کرہا ہے مگر اتوار کو ملنے والے زیتونی کچھوے کو سبز سمندری کچھوا قرار دے کر اس کی سمندر واپسی کی تہشیر مقامی اخبارات میں کردی۔
ٹیلی فون پر رابطے میں آصف سندیلو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بتایا: ’وہ سبز سمندری کچھوا تھا جس کو ڈبلیو ڈبلیو ایف نے ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد سینڈز پٹ ساحل پر سمندر میں حفاظت سے واپس بھیج دیا اور اس کی خبر اخبارات کو دے دی مگر رات میں وہ کچھوا واپس ساحل پر آگیا تو ڈبلیو ڈبلیو ایف کے رضاکار اسے اٹھا کر ویٹ لینڈ سینٹر لے آئے جہاں بعد میں اسے محکمہ جنگلی حیات کے سپرد کردیا گیا۔‘
کنزرویٹر محکمہ جنگلی حیات سندھ، جاوید مہر، نے انڈپینڈینٹ اردو کہ بتایا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف ایک عالمی این جی او ہے اور کسی بھی جنگلی حیات کو اس کے قدرتی ماحول میں چھوڑنے سے پہلے لازمی طور پر محکمہ جنگلی حیات کو مطلع کرنا ضروری ہوتا ہے جو نہیں کیا گیا۔ ’ہمیں اخبارات سے پتا چلا کہ ایک کچھوا ڈبلیو ڈبلیو ایف کو ملا جسے واپس سمندر میں بھیج دیا گیا مگر چوںکہ ہمیں نہیں بتایا گیا تو ہم نے ڈبلیو ڈبلیو ایف سے معلوم کیا تب پتا چلا کہ کچھوا ابھی تک ان کے پاس ہے تو ہم نے اپنا ایک افسر بھیجا تو ڈبلیو ڈبلیو ایف نے کچھوا وہاں سے لے جانے کی درخواست کی مگر اس کے زخموں کے بارے میں نہیں بتایا اور تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ وہ سبز کچھوا نہیں بلکہ زیتونی بالغ مادہ کچھوا تھی جس کی مرہم پٹی کی گئی مگر وہ زخموں کی تاب نہ لا سکی اور فوت ہوگئی۔
کچھوے کی موت کے بعد اس کا ایکسرے کروانے کے لیے اسے ڈی ایچ اے میں واقع جنگلی حیات کی ایک لیبارٹری لے جایا گیا جہاں ایکسرے کے بعد پتا چلا کہ مرنے والے کچھوے کے گلے میں مچھلی کے شکار میں استعمال ہونے والا کنڈا پھنسا ہوا تھا۔ جاوید نے بتایا ’کچھوے کے جسم پر مچھلی کے جال سے کٹنے کے نشانات تھے جبکہ وہ لوہے کا کنڈا نگل گیا تھی جس کے باعث اس کی موت واقع ہوگئی۔’
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی کے ھاکس بے اور سینڈز پٹ کے ساحل سبز سمندری کچھووں کے ساتھ زیتونی کچھووں کی افزائش والے ساحل ہیں جہاں ماضی میں ہر سال دونوں اقسام کے کچھوے بحر عرب سے آ کر انڈے دیتے تھے مگر اب صرف سبز سمندری کچھوے انڈے دینے آتے ہیں جبکہ زیتوںی کچھووں نے آنا بند کردیا ہے۔
بقول جاوید مہر: ’سبز کچھوے ساحل کے ساتھ ریت میں گڑھا بنا کر انڈے دیتے ہیں، جبکہ زیتونی کچھوے ساحل سے کچھ فاصلے پر انڈے دیتے ہیں۔ مگر ساحل پر انسانی آبادیوں کے باعث زیتونی کچھووں کے انڈے دینے کی کوئی جگہ نہیں بچی ہے جس کے باعث زیتونی کچھووں نے کراچی کے ساحلوں کا رخ کرنا چھوڑدیا ہے۔ 1996 سے 1998 تک کراچی کے ساحل پر زیتونی کچھوے انڈے دیتے پائے گئے تھے لیکن اس کے بعد کوئی زیتونی کچھوا رپورٹ نہیں ہوا۔’
انہوں نے کہا کہ رواں سال اس سے پہلے بھی ایک زیتونی کچھوا ملا تھا جو 22 سالوں میں پہلی بار ہوا تھا۔ پہلے کچھوے کو بحفاظت واپس سمندر میں بھیج دیا گیا، لیکن اتوار کو ملنے والی مادہ کچھوا نہ بچ سکی۔
مرے ہوئے زیتونی کچھوے کو حنوط کر کے محکمہ جنگلی حیات سندھ کے میوزیم میں رکھا جائے گا۔
ماہرین جنگلی حیات کے مطابق سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں پر پانچ اقسام کے کچھوے بشمول سبز، زیتونی اور لوگر ہیڈ پائے جاتے ہیں۔
کراچی کے ساحل سینڈز پٹ اور ہاکس بے، جبکہ بلوچستان کے اورماڑہ اور گوادر کا ساحل وہ علاقے تصور کیے جاتے ہیں جہاں سبز کچھوے کی مادہ ایک مخصوص موسم میں انڈے دینے آتی ہے۔
مگر بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور ساحل کے ساتھ انسانی آبادیوں کے بننے کے باعث اب زیتونی کچھووں نے کراچی کے ساحلوں کا رخ کرنا چھوڑدیا ہے۔