پاکستانی حکام کے مطابق ملک میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ملیریا اور دیگر بیماریوں سے مرنے والوں کی تعداد 300 سے زیادہ ہو گئی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے سندھ کے کچھ علاقوں میں ملیریا تیزی سے پھیل رہا ہے، جہاں متاثرین کی بڑی تعداد اب بھی ٹھہرے ہوئے پانی کے قریب پناہ لیے ہوئے ہے۔
سندھ کے شہر سہون شریف میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے سیلاب متاثرین کی ایک بڑی تعداد ملیریا اور گیسٹرو کی بیماریوں میں مبتلا ہے۔
ڈاکٹر عبدالرؤف نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا سیلاب کے باعث ایسے مریضوں کی تعداد میں 20 سے 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کھلا (سیلاب کا) پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے گیسٹرو اور ملیریا کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہاں عام طور پر ملیریا کے اتنے مریض نہیں ہوتے لیکن اب ہمارے پاس آنے والے 10 بیمار بچوں میں سے آٹھ یا نو ملیریا کا شکار ہیں۔‘
سندھ کی صوبائی حکومت نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں صحت کی عارضی سہولیات اور موبائل کیمپوں میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں 78,000 سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا گیا، جبکہ یکم جولائی سے اب تک 20 لاکھ سے زیادہ مریض زیر علاج رہے، جن میں سے چھ کی موت ہو گئی۔
ڈاکٹرز نے اسی عرصے کے دوران اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے خاندانوں میں ملیریا کے 665 نئے کیسز کی تصدیق کی۔
انہوں نے کہا کہ مزید نو ہزار 201 مشتبہ کیسز کے ساتھ صوبے بھر میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں 19 ہزار سے زائد مریضوں کے ٹیسٹس کیے گئے، جن میں سے ایک چوتھائی یعنی چار ہزار 876 کیسز مثبت تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکام کا کہنا ہے کہ اگر ضروری امداد جلد نہ پہنچی تو صورت حال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
سیلاب سے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں جہاں سیلاب کا پانی سیکڑوں کلومیٹر علاقوں پر پھیلا ہوا ہے اور اس کے نکاس میں دو سے چھ ماہ لگ سکتے ہیں جس کی وجہ سے جلد اور آنکھوں میں انفیکشن، ڈائریا، ملیریا، ٹائیفائیڈ اور ڈینگی بخار کے بڑے پیمانے پر کیسز سامنے آئے ہیں۔
مچھروں اور دیگر خطرات جیسے سانپ اور کتے کے کاٹنے کے واقعات سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے مزید فوری مدد کی ضرورت ہے۔
انہیں اشیائے خوردونوش، رہائش، طبی امداد اور ادویات کی اشد ضرورت ہے۔
بہت سے لوگوں کو شکایت ہے کہ حکومت اور مقامی اور غیر ملکی امدادی تنظیموں کی کوششوں کے باوجود انہیں امداد تک رسائی نہیں مل رہی۔