طالبان کا روس کے ساتھ گندم، گیس اور تیل کی درآمد کے معاہدے کا اعلان

یہ واضح نہیں ہے کہ بینکنگ پابندیوں کے باعث طالبان حکومت افغانستان میں درآمد کیے جانے والے سامان کی ادائیگی کیسے کرے گی۔

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور افغان حکومت اور طالبان دونوں کے نمائندگان 9 نومبر 2018 کو ماسکو میں افغانستان پر بین الاقوامی مذاکرات سے قبل ایک تصویر کے لیے پوز دیتے ہوئے (اے ایف پی/ یوری کادوبنوف)

جیسے جیسے سردیاں قریب آتی جا رہی ہیں افغانستان میں مکانات کو گرم رکھنے کے لیے خوراک اور تیل کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ اسی دوران طالبان حکومت نے روس کے ساتھ تیل اور گندم درآمد کرنے کا ایک معاہدہ کیا۔

 طالبان حکومت کی وزارت تجارت اور صنعت کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ان کی اور کسی غیرملکی حکومت کے درمیان کوئی بڑا اقتصادی معاہدہ طے پایا ہے۔

طالبان کے قائم مقام وزیر تجارت و صنعت حاجی نورالدین عزیزی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق انہوں نے روسی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق پٹرول، ڈیزل، گیس اور گندم روس سے افغانستان بھیجی جائے گی۔

عزیزی نے کہا کہ روس نے افغانستان کے لیے جس قیمت پر اتفاق کیا ہے وہ عالمی منڈی کی اوسط قیمت سے کم ہے اور گذشتہ برس طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان کسی دوسری حکومت کے ساتھ باضابطہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

طالبان حکام کو امید ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے وہ معاشی تنہائی سے نکل سکیں گے اور خود کو بینکنگ کی ان پابندیوں سے آزاد کرا سکیں گے جو دنیا نے ان پر عائد کی ہیں۔

اگرچہ روس نے اب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن روسی حکومت ہمیشہ سے طالبان گروپ کی قریبی حامی رہی ہے اور اس نے کئی سال تک ماسکو میں طالبان کے ساتھ کئی ملاقاتوں کی میزبانی کی ہے۔

طالبان کے قائم مقام وزیر تجارت و صنعت کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے مطابق روس افغانستان کو 10 لاکھ ٹن پٹرول، 10 لاکھ ٹن ڈیزل، پانچ لاکھ ٹن مائع گیس اور 20 لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے جا رہا ہے۔

تاہم روسی حکام نے طالبان کے اس دعوے پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ روئٹرز نے اطلاع دی ہے کہ روس کے نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک کے دفتر نے اس پر فوری ردِ عمل نہیں دیا۔ نوواک تیل اور گیس کی وزارتوں کے ان چارج ہیں۔

طالبان کے قائم مقام وزیر برائے تجارت و صنعت نورالدین عزیزی کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ عارضی ہے اور اس پر غیر معینہ مدت میں عمل درآمد کیا جائے گا اور کچھ عرصے بعد اگر دونوں فریق صورت حال سے مطمئن ہو گئے تو مستقل بنیاد پر معاہدہ کر لیا جائے گا۔

روس سے گندم، تیل اور گیس کی درآمد کے معاہدے پر دستخط کی خبر ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب افغانستان کے عوام شدید سردی کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ افغانستان کے کچھ حصوں، خاص طور پر شمال مشرق اور مرکز میں، موسم سرما بہت پہلے آتا ہے اور شدید ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ افغانستان میں لوگوں کی اکثریت بھوک اور انتہائی غربت سے پریشان ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے پیر کو شائع ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں 18 لاکھ افراد کو آنے والے موسم سرما میں بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم نے دنیا کے ممالک سے کہا کہ وہ افغانستان میں موسم سرما سے نمٹنے کے لیے 1.1 ارب ڈالر عطیہ کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان کے قائم مقام وزیر تجارت و صنعت کا کہنا ہے کہ ’افغانوں کو اشد ضرورت ہے اور ہم عوام کے مفادات اور قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کر رہے ہیں۔‘ عزیزی کے مطابق فی الحال کچھ تیل اور گیس ترکمانستان اور ایران سے درآمد کی جاتی ہے لیکن ان کے مطابق ’ملک کو اپنے کاروبار کو متنوع رکھنا چاہیے اور مختلف ممالک کے ساتھ تجارت کرنی چاہیے۔‘

تاہم، بینکنگ پابندیوں کی وجہ سے یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان حکومت افغانستان میں درآمد کیے جانے والے سامان کی ادائیگی کیسے کرے گی۔

امریکی حکومت نے حال ہی میں افغانستان کے کل زرمبادلہ کے ذخائر میں سے 3.5 ارب ڈالر سوئٹزرلینڈ کے ایک ٹرسٹ فنڈ میں جمع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ رقم افغانستان کی اقتصادی ترقی اور مختلف ممالک سے بجلی درآمد کرنے کے قرض سمیت ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کی جائے گی۔

امریکی حکومت نے اعلان کیا کہ یہ رقم افغانوں کے حالات زندگی میں مدد کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی اور صرف اقتصادی اور ترقیاتی مقاصد اور نئے بینک نوٹ چھاپنے کے لیے استعمال کی جائے گی۔

اگرچہ دنیا کے ممالک روس پر پابندیاں لگا کر یوکرین میں جنگ کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ روس جنوبی ایشیا میں نئی ​​منڈیوں کی تلاش میں ہے اور اس سلسلے میں وہ افغانستان جیسی چھوٹی منڈی سے بھی نہیں چوکا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا