خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر کے گاؤں میں ایک نوجوان کی حالت بجلی کا کرنٹ لگنے سے غیر ہو جاتی ہے اور اہل علاقہ برقی رو کے اثرات زائل کرنے کی غرض سے اس کے جسم پر مٹی ڈالتے ہیں۔
واقعے کی اطلاع مقامی 1122 کو دی جاتی ہے، جس کا عملہ وہاں پہنچ کر مریض کو طبی امداد فراہم کرکے نوجوان کی جان بچا لیتا ہے اور بعد ازاں اسے ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے۔
دیر کے علاوہ پاکستان میں دوسرے کئی علاقوں میں مانا جاتا ہے کہ بجلی کا کرنٹ لگنے کی صورت میں متاثرہ شخص کو زمین میں دبانے یا اس کے جسم پر مٹی یا ریت ڈالنے سے برقی رو کے مضر اثرات کم یا ختم کیے جا سکتے ہیں۔
تاہم ماہرین کے مطابق کرنٹ لگنے کے شکار شخص کو مٹی یا ریت کے استعمال سے مزید خطرہ ہو سکتا ہے۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ریسکیو 1122 کے ٹریننگ اینڈ سیفٹی آفیسر عنایت الرحمان سے دریافت کیا کہ کرنٹ لگنے کی صورت میں متاثرہ شخص کو کس قسم کی ابتدائی طبی امداد دی جانا چاہیے اور اس سلسلے میں مٹی یا ریت کا کیا کردار ہو سکتا ہے۔
عنایت الرحمان کے مطابق کسی کو کرنٹ لگنے کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ متاثرہ شخص ہوش میں رہے جبکہ اس کا بے ہوش ہونا بھی خارج از امکان نہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں صورتوں میں متاثرہ شخص کو طبی امداد فراہم کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔
ریسکیو ذمے دار کا کہنا تھا کہ ایسا واقعہ پیش آنے کے بعد وہاں موجود دوسرے لوگوں کو سب سے پہلے 1122 کی مدد طلب کرنا چاہیے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ طبی امداد کے پہنچنے سے پہلے لوگوں کو حواس باختہ ہونے کی بجائے بجلی کا مین سوئچ بند کر کے متاثرہ شخص کے قریب سے تار وغیرہ ہٹا دینے کے بعد اس کے قریب جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو کرنٹ لگنے کے پانچ سیکنڈ بعد متاثرہ شخص کے ہوش میں یا بے ہوش ہونے کا تعین کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اس مقصد کے لیے پہلا قدم متاثرہ شخص کے کندھے پر تھپکی دے کر نام کے ساتھ اسے پکارنا ہے، جس کا کسی بھی شکل میں جواب آ جائے تو وہ ہوش میں ہے، ورنہ بے ہوش۔
ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ شخص کے ہوش میں یا بے ہوش ہونے کا تعین ان کی نبض اور سانس چیک کر کے بھی کیا جا سکتا ہے، جبکہ سینے کی اوپر نیچے حرکت موجودگی اس کے ہوش میں ہونے کو کنفرم کر سکتی ہے۔
متاثرہ شخص ہوش میں ہونے کی صورت
عنایت الرحمان کا کہنا تھا کہ متاثرہ شخص کے ہوش میں ہونے کی صورت میں اس کے جسم کی پوزیشن اہم ہو جاتی ہے، جس سے اس کے سانس لینے میں آسانی اور جسم میں خون کی گردش سے ہوتا ہے۔
ریسکیو اہلکار نے کہا کہ متاثرہ شخص کا صحیح طریقے سے سانس لینا ضروری ہے، اور وہاں موجود لوگوں کو یہ ضرور چیک کرنا چاہیے کہ اس کی سانس کی نالی کسی وجہ سے بند تو نہیں۔
عنایت الرحمان نے کہا کہ کرنٹ لگنے سے متاثرہ شخص کے معدے میں موجود مواد منہ کی طرف آ سکتا ہے، جس سے اس کے سانس کی نالی کے بند ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
’اس لیے سب سے پہلے اس کے جسم کو اس کی ایک سائیڈ پر موڑ لیا جائے، جس سے سانس کی نالی بند ہونے کا امکان کم ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ متاثرہ شخص کو کھانے یا پینے کے لیے بھی کچھ نہیں دینا چاہیے، جس سے اس کے سانس کی نالی بند ہو سکتی ہے۔
ریسکیو اہلکار نے مزید احتیاطی تدابیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دوسرا اہم کام مریض کے پیروں کو تکیے یا کسی دوسری چیز کے استعمال سے باقی جسم سے بلند کر دینا چاہیے۔
اس سے متاثرہ شخص کا دوران خون سر کی جانب زیادہ ہو گا، اور اس کے دماغ کو خون کی رسد جاری رہے گی۔
اگر متاثرہ شخص بے ہوش ہو
بجلی کا کرنٹ لگنے کے بعد متاثرہ شخص کوئی جواب نہیں دے رہا، نہ اس کی نبض چل رہی ہے، یا سینے میں حرکت نہیں دکھ رہی، تو اس کا بے ہوش ہونا کنفرم ہو گیا ہے۔
عنایت الرحمان کا کہنا تھا کہ بے ہوش متاثرہ شخص کی سانس یا نبض یا دونوں بند ہیں تو مصنوعی طریقے سے اس کی سانس کا سلسلہ شروع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس طریقے میں مددگار مریض کے سینے پر اپنے ہاتھوں سے بار بار دباؤ ڈال کر اس کے دل کی رکی ہوئی دھڑکن اور سانسوں کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرتا ہے۔ اس عمل کو سی پی آر ( کارڈیو پلمونری ریسسی ٹیشن) کہا جاتا ہے۔
مریض کی چھاتی پر چند ایک مرتبہ دباؤ ڈالنے کے بعد اس کے منہ پر مددگار اپنا منہ رکھ کے پھیپڑوں میں ہوا بھی داخل کرتا ہے، اور یہ دونوں کام بار بار کیے جاتے ہیں۔
سی پی آر انسانی زندگی بچانے کی ایک تکنیک ہے، جسے بہت احتیاط سے استعمال کیا جانا چاہیے۔
عنایت الرحمان نے مزید بتایا کہ بے ہوش ہونے والے شخص کے جسم کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے، اس لیے برقی کرنٹ سے متاثر ہونے والے کے جسم پر کمبل یا چادر ڈال کر اسے گرم رکھنے کی کوشش کی جانا چاہیے۔
مٹی یا ریت کا استعمال
عنایت الرحمان نے بکلی کے کرنٹ اور ریت یا مٹی کے تعلق سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ بے ہوش متاثرہ شخص کو مٹی یا ریت میں دبانے کی صورت میں اس کی موت ہو سکتی ہے۔
’کرنٹ تو انسانی جسم میں اپنا کام کر چکا، لیکن ریت یا مٹی میں دفن کرنے سے متاثرہ شخص کی سانس یا حرکت قلب بند ہونے سے موت ہو سکتی ہے، اور اسی لیے کسی طب کے کتاب میں ایسے کسی طریقہ کار کا ذکر موجود نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور میں وولٹ مائن نامی سولر کمپنی کے سربراہ انجینیئر ابرار اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ زمین میں زیرو پوٹینشل ہوتا ہے، یعنی وولٹیج بالکل نہیں ہوتا اور وولٹیج کو اس سے اوپر ناپا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ زمین سے اوپر وولٹیج کا ناپا جانا ایسا ہی ہے جیسے سطح سمندر سے کسی اونچائی کا ماپا جانا۔
ابرار اللہ کا کہنا تھا کہ انسانی جسم ایٹمز کا مجموعہ ہے اور برقی کرنٹ متحرک الیکٹرانز پر مشتمل ہوتا ہے۔
’کسی شخص کو برقی کرنٹ لگنے کی صورت میں اس کے جسم میں موجود ایٹمز کرنٹ میں موجود متحرک الیکٹرانز کی وجہ سے حرکت کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور اسی حرکت کے زیادہ (یعنی ہائی وولٹیج کرنٹ) ہونے کی صورت میں جسم جھلس جاتا ہے۔
انہوں نے کرنٹ سے متاثرہ شخص کو مٹی یا ریت میں دبانے کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس سے انسانی جسم میں داخل ہونے والا کرنٹ (الیکٹرانز) زیادہ سے کم ارتکاز کی طرف حرکت کے سائنسی اصول کے تحت زمین میں منتقل ہو جائے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ متاثرہ انسانی جسم کو مٹی یا ریت میں دبانا یا ڈھانپنا کوئی سائنسی طریقہ نہیں، اس لیے ہر صورت ریسکیو اہلکاروں کو طلب کر کے طبی امداد کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔
ابرار اللہ کے مطابق بجلی کا کرنٹ لگنے سے انسانی جسم میں دوسرے کئی مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں، اس لیے ایسی کسی بھی صورت میں ایمرجنسی سروس کو بلانا ہی درست قدم ہو سکتا ہے۔