پاکستان میں دہائی کے بدترین سیلاب کے بعد پانی جمع ہونے سے ملیریا اور دیگر بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔
پاکستان کے ایک چھوٹے سے قصبے سیہون کے مرکزی سرکاری ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ بھر ا ہوا ہے۔
سینکڑوں لوگ کمروں اور راہداریوں میں علاج کی غرض سے جمع ہیں۔
عبداللہ شاہ انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز کے ایمرجنسی رسپانس ڈپارٹمنٹ کے ایک نوجوان ڈاکٹر نوید احمد ایک ہی وقت میں پانچ یا چھ افراد کی علاج میں مدد کر رہے ہیں۔
اگست اور ستمبر میں ہونے والی موسلادھار بارش سے گھر ڈوب جانے کے بعد میلوں دور سے آنے والے ہزاروں مریضوں سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی وارڈ کے عملے کو سخت محنت کرنی پڑ رہی ہے۔
مختصر وقفے کے دوران ہسپتال کی کینٹین میں چائے کا کپ پیتے ہوئے ڈاکٹر نوید احمد نے بتایا کہ ’ہم بعض اوقات اتنا زیادہ کام کرتے ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں گرنے لگا ہوں۔ لیکن یہ ان مریضوں کی دعاؤں کی وجہ سے ہے کہ ہم کام کرتے رہتے ہیں۔‘
احمد پورے جنوبی پاکستان میں بیماری اور اموات کو روکنے کی جنگ میں فرنٹ لائن پر ہیں، جہاں سینکڑوں قصبے اور دیہات بڑھتے ہوئے پانی سے کٹ گئے تھے۔
سیلاب نے 22 کروڑ آبادی والے ملک میں تقریبا تین کروڑ30 لاکھ افراد کو متاثر کیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہر صبح ان کے کلینک پہنچنے والے 300 یا 400 مریضوں میں سے زیادہ تر ملیریا اور اسہال (ڈائریا) میں مبتلا ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر بچے ہیں۔ سردیوں کے قریب آنے کے ساتھ، ڈاکٹر کو ڈر ہے کہ دیگر بیماریاں بھی پھیلیں گی۔
’مجھے امید ہے کہ سیلاب سے بے گھر ہونے والے لوگ موسم سرما سے پہلے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے۔
’(اگر نہیں گئے) تو وہ خیموں میں رہ کر سانس کی بیماریوں اور نمونیا کا شکار ہوجائیں گے۔
’بے گھر ہونے والے لاکھوں پاکستانی ان سرکاری کیمپوں میں رہ رہے ہیں یا صرف کھلے آسمان تلے۔‘
سینکڑوں مربع کلومیٹر(میل) میں پھیلے ہوئے سیلابی پانی کو کچھ جگہوں پر کم ہونے میں دو سے چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔
اور اس کی وجہ سے جلد اور آنکھوں میں انفیکشن، اسہال، ملیریا، ٹائیفائیڈ اور ڈینگی بخار کے متعدد کیسز سامنے آچکے ہیں۔
یہ بحران پاکستان کو خاص طور پر برے وقت میں متاثر کرتا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرضوں کی وجہ سے اس کی معیشت بحران کا شکار ہے اور اس کے پاس سیلاب کے طویل مدتی اثرات سے نمٹنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔
مون سون کی شدید بارشوں اور گلیشیئرز پگھلنے کی وجہ سے آنے والے سیلاب میں تقریبا 1700 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستان کا تخمینہ ہے کہ اس نقصان کی لاگت 30 ارب ڈالر ہے۔ حکومت اور اقوام متحدہ نے اس تباہی کا ذمہ دار موسمیاتی تبدیلی کو قرار دیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث اب تک 340 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
’دوسری آفت‘
سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ کے محکمہ صحت کے مطابق یکم جولائی سے تاحال ملیریا کے 17 ہزار 285 کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے۔
سیلاب کے بچاؤ اور ریلیف مرحلے کے بعد بیماریاں پھیلنے کے خطرے کا اندازہ لگاتے ہوئے، سندھ حکومت سب سے زیادہ خطرے سے دوچار اضلاع میں عارضی بنیادوں پر پانچ ہزار سے زیادہ ہیلتھ پروفیشنلز کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
صوبائی قانون ساز اور سندھ حکومت کے پارلیمانی سیکریٹری صحت قاسم سومرو نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’ماضی کی نسبت حد سے زیادہ سیلاب کے بعد بیماریوں کے پھیلاؤ کی نسبت ہمارے پاس انسانی وسائل کم ہیں۔‘
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ملک بھر، بالخصوص سندھ میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی ’دوسری آفت‘ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیہون کے ہسپتال کے وارڈ میں تیز بخار میں مبتلا ایک نوجوان مین ایمرجنسی روم کے باہر بستر پر لیٹا ہو تھا۔
اس کی ماں بھاگتی ہوئی احمد کے پاس گئی، جس نے مریض کو چیک کیا اور ایک مرد نرس سے کہا کہ وہ اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پیڈ رکھے۔
ہوا میں نمی کی مقدار زیادہ تھی، اور بستروں سے بھری ہوئی راہداریوں میں درجہ حرارت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ایئر کنڈیشنر ناکافی تھے۔ وارڈ گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے تھے اور بستروں پر ایک سے زیادہ مریض تھے۔
چین کی ایک یونیورسٹی سے فارغ التحصیل احمد نے اپنے اور دیگر طبی عملے کے دباؤ کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے کہا کہ ’لوگوں کی اس طرح کی آمد کے دوران، ہم ... علاج شروع کرنے کے لیے ہر مریض کے ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار نہیں کر سکتے۔ جیسے ہی مجھے علامات نظر آتی ہیں تو میں ملیریا کے علاج کی دوا دینا شروع کر دیتا ہوں۔‘
سیہون میں قائم یہ ادارہ نزدیکی قصبوں اور اضلاع سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا علاج کرتا ہے، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
جگن شاہانی کی بیٹی تقریبا ایک ہفتہ قبل بخار میں مبتلا ہونے کے بعد بے ہوش ہوگئی تھی۔
انہوں نے اپنے سیلاب زدہ گاؤں بھجارہ سے باہر نکلنے کے لیے ایک کشتی کا استعمال کیا اور قریبی سڑک پر ایک کار سے لفٹ لی جو انہیں سیہون لے گئی۔
انہوں نے کہا ’ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں ملیریا ہے۔ یہ یہاں ہماری چوتھی رات ہے۔ یہاں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے لیکن اللہ نے سب کچھ فراہم کر کے بہت مہربانی کی ہے۔ ان کی 15 سالہ بیٹی حمیدہ اب صحت یاب ہو رہی ہیں۔‘
قصبے کے مضافات میں، سینکڑوں بے گھر افراد خیمہ بستی، لال باغ میں تقسیم کیے جانے والے راشن کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔
سیہون سے گزرنے والی انڈس ہائی وے بے گھر افراد کے لیے خیموں سے بھری ہوئی ہے۔
جہاں پانی کافی حد تک اتر چکا ہے وہاں کچھ گھر لوگ گھروں کو واپس آنے لگے ہیں، لیکن سبھی اتنے خوش قسمت نہیں ہیں۔
مدد علی بزدار نے کہا کہ’یہاں اللہ کے سوا کوئی میری مدد کرنے والا نہیں ہے۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ میرے گاؤں میں پانی کم ہو جائے اور میں اپنے گھر واپس جا سکوں‘
52 سالہ بزدار کا تعلق منچھر جھیل کے شمال مشرقی کنارے پر واقع قصبے ببک سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے گاؤں میں اب بھی 10 سے 12 فٹ (3-4 میٹر) پانی ہے۔
انہیں توقع تھی کہ وہ تقریبا دو ماہ کے عرصے میں واپس اپنے گھر جا سکیں ہو جائیں۔