آٹھ اکتوبر 2005 کی صبح 15 سالہ محمد عقیل اپنی کلاس کے باقی 45 طلبہ کی طرح معمول کے مطابق سکول آئے۔ معلم نے انہیں کاغذ کی فوٹو کاپی کروانے بازار بھیج دیا۔ عقیل بازار سے واپسی پر بمشکل سکول کے گراؤنڈ میں ہی پہنچے تھے کہ زمین ہچکولے کھانے لگی اور تباہ کن زلزلے نے پورے سکول کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔
پاکستانی تاریخ کے اس ہولناک زلزلے کو گزرے 17 برس بیت چکے ہیں مگر اس کی تباہ کاریوں کا آنکھوں دیکھا منظر، نفسا نفسی اور پیاروں کی لاشوں کے انبار آج بھی محمد عقیل کو غمگین کر دیتے ہیں۔
پروفیسر محمد عقیل سواتی محکمہ اعلیٰ تعلیم خیبر پختونخوا میں مطالعہ پاکستان کے لیکچرار کے طور پر ایبٹ آباد کے ایک کالج میں اپنے تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
وہ اس وقت میٹرک کے طالب علم تھے اور 2005 کے زلزلے کے دوران معجزاتی طور پر محفوظ رہے۔
عقیل بتاتے ہیں: ’میں فوٹو سٹیٹ کروا کر واپس لیبارٹری کی طرف جا رہا تھا جہاں ٹیچر اور کلاس کے بچے موجود تھے مگر جونہی میں سکول کے گراؤنڈ میں پہنچا تو زلزلہ آ گیا۔
’ہر طرف گردوغبار ہونے کے باعث دیکھنے کی حد صفر اور حواس باختہ ہو چکے تھے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور میری نظروں کے سامنے سکول گرا پڑا تھا۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں: ’لیبارٹری میں موجود کلاس پر چھت گرنے اور کیمسٹری کے پریکٹیکلز میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کے باعث تابکاری سے پوری کلاس اور اس کے ساتھ ہمارے معلم مولانا نورانی بھی لقمہ اجل بن گئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد عقیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جیسے ہی وہ سکول سے باہر نکلے تو ہر طرف چیخ و پکار اور بازار سے دھول اڑ رہی تھی۔ ایک شخص کی ٹانگ بس کے نیچے آئی ہوئی تھی اور وہ فریاد کر رہا تھا لیکن وہاں سے انہیں نکالنے والا کوئی نہیں تھا۔
’کچھ آگے ایک کچا سا مکان گرا پڑا تھا اور ساتھ ہی سڑک کے کنارے کچھ مزدور کام کر رہے تھے جن کے پاس کھدائی کے اوزار تھے۔ انہوں نے ایک عورت کے رونے کی آواز سنی کہ کہیں اس کا بچہ اس مکان کے نیچے آیا ہوا ہے اور اس کو وہاں سے نکالنے میں مدد کی جائے۔‘
عقیل نے بتایا کہ ’جب مزدور نے اسے نکالنے کے لیے زمین کی کھدائی کی تو ان کی گینتی بچے کے سر میں پیوست ہو گئی اور سر کے نچلے حصے سے جا نکلی۔ مزدور نے جب اس کو اوپر کھینچا تو خون کی ایک دھار اوپر کی طرف ایک نیچے کی طرف گئی اور اسے دیکھتے ہی عورت بھی موقعے پر دم توڑ گئیں۔‘
مجموعی طور پر 2005 کے زلزلے میں 27 ہزار اموات ہوئیں، جس میں 19 ہزار طلبہ تھے۔
گورنمنٹ ہائی سکول بالا کوٹ کے گراؤنڈ میں آج بھی بہت سارے طلبہ دفن ہیں۔ ایک اجتماعی قبر میں 63 طلبہ اپنے اساتذہ کے ساتھ دفن ہیں جب کہ ساتھ ہی دوسری اجتماعی قبر ہے جس میں 21 طلبہ دفن ہیں۔
یہ وہ طلبہ تھے جن کے خاندان کے افراد بھی وفات پا گئے اور کوئی ان کی لاشیں لینے نہیں آیا۔
عقیل بتاتے ہیں کہ ’میں جب بھی بالا کوٹ جاتا ہوں تو ہائی سکول ضرور جاتا ہوں اور شہدا کی قبر پر جا کر ان کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں۔‘
وہ اب بھی اپنے ایک کلاس فیلو شفقت کو بہت یاد کرتے ہیں اور اس کی موت کی وجہ سے اکثر غمگین رہتے ہیں۔ وہ ایک ساتھ سکول جایا کرتے تھے۔
عقیل نے بتایا کہ جب انہیں اس کی لاش ملی تو اس کا سر نہیں تھا جو وہیں کہیں ملبے میں دب گیا تھا۔ دھڑ کو انہوں نے گھڑی سے اور اس کے جوتوں سے پہچانا تھا۔
زلزلے کی تباہ کاریوں نے عقیل کے ذہن میں نہ مٹنے والے نقش چھوڑے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس سانحے کے بعد انہیں ڈرنے اور خوف کی سی علامات کا سامنا رہتا ہے۔ اکثر ایک اداسی سی ان کے اعصاب پر چھا جاتی ہے اور وہ زیادہ تر خاموش رہتے ہیں۔
آج بھی بالاکوٹ کے کئی ایسے خاندان ہیں، جن میں بس ایک ہی فرد بچا ہے۔
عقیل کے ایک دوست غلام حسین کے والد، والدہ اور بہن، بھائی سب زلزلے میں فوت ہو گئے تھے۔ ایسی لاتعداد مثالیں آج بھی ملتی ہیں کہ جن کا اس تباہ کن زلزلے کے بعد کوئی عزیز زندہ نہیں۔