نعت اکیڈمی فیصل آباد ایک ایسا ادارہ ہے جو گذشتہ سات سال سے نعت گوئی سیکھنے کا شوق رکھنے والوں کو اس فن کی باریکیوں سے روشناس کر رہا ہے۔
یہ ادارہ مشہور محقق اور نعتیہ ادب کی اہم شخصیت ڈاکٹر اسحاق قریشی کی کوششوں سے 2015 میں قائم کیا گیا تھا۔
نعت اکیڈمی میں معلم کے فرائض سرانجام دینے والے معروف ماہر تعلیم و نعت خواں پروفیسر محمد خان چشتی نے انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’سرکاری سطح پر یہ پہلی اور اب تک کی واحد نعت اکیڈمی ہے جس سے سینکڑوں افراد فن نعت گوئی میں مہارت حاصل کر چکے ہیں۔
’مجھے سے بڑے بھی یہاں آتے رہے ہیں اور کالجز و یونی ورسٹیز کے طلبہ، مساجد کے امام مسجد و خطیب بھی، تقریبا کوئی 550 سے 600 کے درمیان طالب علم یہاں آ چکے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ نعت گوئی کے لیے بھی کچھ اصول فن موسیقی سے ہی لیے گئے ہیں۔
’جس طرح شاعر کہتا ہے کہ میں نے مطلع لکھا ہے اور یہ مقطع ہے آخری شعر، اس طرح وہ جب گائیکی میں نعت آتی ہے تو وہ استھائی اس کا نام رکھا اور پھر انترہ جو اوپر جا کہ پڑھا جاتا ہے۔‘
پروفیسر محمد خان چشتی کا کہنا تھا کہ نعت اور موسیقی کے فرق کو مشہور شاعر، نعت گو اور نعت خواں محمد علی ظہوری قصوری نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’فن موسیقی اور چیز ہے، نعت حضورکی اور بات ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ نعت کا تعلق سرکار دو عالم سے ہے اور اگر اس کو زیادہ کلاسیکل میں لے جائیں تو پھر اس میں وہ کیف اور سرور کم ہو جائے گا جو کہ اس صنف کا خاصہ ہے۔
’گو اس میں بھی کچھ اصول جو ہیں وہ بنائے گئے ہیں، جیسے استھائی پڑھنی ہے پھر انترہ پڑھنا ہےاور پھر واپس اسی وزن میں آنا ہے۔‘
پروفیسر محمد خان چشتی کے مطابق موسیقی کی دیگر اصناف کی طرح نعت پڑھنے کے لیے بھی ایک بنیادی شرط یہی ہے کہ نعت خواں بے سرا نہ ہو۔
’ظاہر ہے جب بے وزن ہوگا تو بے سرا ہوگا، تو وہ بیشک موسیقی میں جائے یا نعت خوانی میں آئے تو بے سرا جو ہے وہ سننے والوں کو فورا پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ سر میں نہیں پڑھ رہا۔‘
انہوں نے بتایا کہ علم العروض کے مطابق نعت ہو یا شاعری کی کوئی اور صنف وہ بحر میں لکھی جاتی ہے۔
’گیت ہو، گانا ہو، غزل ہو، نعت ہو کوئی بھی چیز جو ہے وہ ان ہی 14 بحروں میں لکھی جاتی ہے۔ اس لیے جب بحریں وہی ہیں تو طرزیں بھی وہی پھرتی رہتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہر نعت سات، آٹھ مختلف طرزوں میں پڑھی جا سکتی ہے اور وہ نعت اکیڈمی میں اپنےطالب علموں کو بھی ایک ہی نعت مختلف طرزوں میں پڑھنا سکھاتے ہیں۔
’نئی طرز کبھی کوئی آتی ہے۔ جس طرح شاعر ہووہ بھی پرانے اساتذہ کی جو میر تقی میرہے اور اس طرح پرانے جتنے شاعر تھےان کے اوزان میں وہ آگے نئے شاعر لکھتے جاتے ہیں، وزن وہی رہتا ہے۔ '
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح نعت کی بھی پرانے اساتذہ نے جو طرزیں بنائی ہوئی ہیں اب بھی وہی طرزیں بنائی جاتی ہیں۔
نعتیہ شاعری لکھنے اور نعت گوئی کا آغاز پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا۔
عربی، فارسی، اردو ودیگر زبانوں میں نعتیہ کلام کا ذخیرہ اس قدر زیادہ ہے کہ اس کا احاطہ کرناممکن نہیں ہے۔
نعت گوئی کا فن بظاہر جس قدرسادہ نظر آتا ہے اسی قدر مشکل ہے کیوں کہ ایک طرف وہ عظیم ہستی ہے جس کی مد ح خود رب العالمین نے کی ہے جبکہ دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں۔