اسلام آباد کے سب سے بڑے شاپنگ مال سینٹورس میں جس وقت آگ لگی اس وقت سامنے والے پل سے میں دفتر کے لیے جا رہا تھا۔
آگ لگے شاید 10 سے 15 منٹ ہوئے تھے تو ابھی ادھر راستہ بھی کھلا تھا اور ہلکا سا دھواں تھا جسے بڑی آسانی سے نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔
دفتر پہنچنے کے آدھے گھنٹے بعد فیس بک لائیو کرنے کے لیے مجھے اور میرے ساتھی سہیل اختر صاحب کو روانہ کیا گیا۔
یہ وقفہ سمجھ لیں ایک گھنٹے کا تھا کہ جب میں وہاں سے گزرا اور جس وقت میں دوبارہ ادھر کوریج کرنے پہنچا۔
ایک گھنٹے میں آگ اس سطح پر پہنچ چکی تھی جسے بجھانے کے لیے وہاں موجود فائر بریگیڈ کی دھار ناکافی نظر آ رہی تھی۔
دو تین منٹ کا فیس بک لائیو کیا جس دوران سینٹورس میں کام کرنے والے طلحہ صاحب نے بتایا کہ آگ فوڈ کورٹ کے ایک ریسٹوران میں لگی اور اس کے بعد پھیلتی گئی۔
موقع پر موجود کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بہت دیر سے پہنچیں لیکن طلحہ نے بتایا کہ 10 سے 15 منٹ میں ایمرجنسی رسپانس موجود تھا۔
جو منظر پریشان کن تھا وہ یہ کہ عمارت کے عین نیچے کھڑے ہوئے عام شہری سیلفیاں اور ویڈیو بنا رہے تھے۔ کچھ دیر میں پولیس نے لوگوں کو زیادہ آگے جانے سے روک دیا۔
سوال یہ ہے کہ ’زیادہ آگے‘ کا مطلب کیا ہے۔ سیفٹی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اگر ایک عمارت جل رہی ہے اور آگ تیزی سے اوپر پہنچتی دیکھی جا رہی ہے تو لوگوں کو اس سے اتنے فاصلے پہ ہونا چاہیے کہ اگر اس کا ملبہ کہیں گرے تو اس کی زد میں کوئی نہ آئے۔
محتاط ترین اندازے کے مطابق یہ فاصلہ عمارت کے گرد تین سو گز کا دائرہ تھا لیکن مجھ (بحیثیت رپورٹر) سمیت سینکڑوں لوگ پہلے سو گز کے اندر اب بھی موجود تھے۔
گاڑیاں کافی دور روک دی گئی تھیں لیکن جوق در جوق پیدل افراد ایسے پہنچ رہے تھے جیسے آتشبازی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ کم از کم تین چار سو لوگ سامنے فلائی اوور کی دیوار سے لگے سیلفیوں میں مصروف تھے اور باقی لالچی نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے کہ یہ ہٹیں تو ہم ان کی جگہ آئیں۔
سہیل صاحب لائیو کے بعد ویڈیو بنانے آگے گئے تو میں نے آس پاس نظر دوڑائی۔
سینٹورس سے دور کافی تعداد میں وہ لوگ موجود تھے جو اس کے اندر کام کرتے ہیں۔ وہ پل کی دیوار سے ٹیک لگائے بس اپنا روزگار جلتے دیکھے جا رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔ اندرونی عملے کی چار پانچ بچیاں سہمی ہوئی کھڑی تھیں اور روتی ہوئی ایک لڑکی کو دلاسہ دے رہی تھیں جو ابھی اندر سے باہر آئی تھی۔
موٹر سائیکلوں پہ دو دو تین تین لڑکے بیٹھ کر ادھر قریب ترین مقام تک رسائی کی کوشش میں تھے کیوں کہ یہ ان کے ٹک ٹاک کا متوقع روزگار تھا۔
دو تین گاڑیاں سائرن بجاتے ہوئے گزریں اور ان کے پیچھے ایک کیموفلاج ٹرک نظر آیا جس کے پیچھے پانی کی ٹینکی لگی ہوئی تھی۔ میں سر جھکائے جا رہا تھا کہ ایک گاڑی سے ٹیک لگائے بزرگ مجھے مخاطب کر کے خود کلام ہوئے ۔۔۔ ’اب فوج آ گئی ہے، یہ آگ بجھا دے گی۔‘
سہیل واپس آئے تو میں نے پوچھا کہ سنائیں کیا حالات تھے۔ وہ بولے کہ یار سی ڈی اے عملے کے ایک بندے سے میں نے بحیثیت صحافی پوچھا کہ فائر بریگیڈ جو پانی مار رہی ہے وہ نیچے کی (10) منزلوں سے آگے جا ہی نہیں رہا، کیا ہمارے پاس اتنی اونچی عمارت پہ لگی آگ بجھانے کے وسائل بھی نہیں ہیں؟
بندہ بولا، ’سر جی نوکری کیوں تیل کرواتے ہیں؟‘
ایک عمارت کو آگ لگنے سے آس پاس کتنی قسم کے لوگ موجود ہوتے ہیں، آج ٹھیک سے اندازہ ہوا۔
وہاں ٹریفک پولیس موجود ہے کہ جو لڑ لڑ کر ہلکان ہو چکی ہے لیکن ہر اگلا بندہ صحافی ہے اور اس کی موٹر سائیکل عین آگ تک پہنچنی ضروری ہے۔
اس جگہ مسلسل دھوئیں اور آسمان کو تکتے دکانوں کے مالک ہیں کہ جن کا روزگار ان کے سامنے راکھ ہو رہا ہے۔
چند فقیر ہیں جو وہاں موجود لوگوں سے بھی برابر مانگ تانگ کر رہے ہیں۔
فیس بک اور ٹک ٹاک کے لیے ویڈیوز بناتے نوجوان جو ٹولیوں میں بٹے ہیں اور جن کی وجہ سے گاڑیاں عمارت تک نہیں پہنچ پا رہیں۔
صحافی ہیں جو مسلسل اپنے اداروں کی گاڑیوں میں ہر دو منٹ بعد پہنچے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹھیلے والے ہیں جو وہاں موجود بھیڑ کو ڈرائے فروٹ یا ابلے چنے بیچ رہے ہیں۔
ایک مجذوب سا آدمی جس کے بال بکھرے ہیں، شلوار قمیص میلی ترین ہے، چہرے پہ جہان کی گرد ہے، ہونٹوں سے رال ٹپک رہی ہے اور جو ہر گزرنے والے کو دیکھ کر ایک ہی سوال کر رہا ہے ۔۔۔ ’اگ اجے وی نئیں بجھی؟‘
جب میں وہاں سے واپس نکلا تب آگ مزید اوپر کی منزلوں تک پہنچ چکی تھی۔
دفتر پہنچنے کے ایک گھنٹے بعد مقامی انتظامیہ کی ٹویٹ دیکھی جو آگ پر قابو پا لینے کی خوش خبری سنا رہی تھی۔