القاعدہ رہنما ڈاکٹر ایمن الظواہری کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد پاک افغان تعلقات میں کشیدگی نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذکرات میں تعطل پیدا کر دیا ہے۔
یہ مذاکرات جو مئی 2022 میں شروع ہوئے تھے ان کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے جون میں غیر معینہ جنگ بندی کا اعلان کیا اور باضابطہ بات چیت کا آغاز ہوا۔
پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان تین سطحوں پر مذاکرات ہوئے۔ پہلی سطح پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے کابل میں ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ براہ راست رابطہ کیا۔
تاہم یہ بتانا ضروری ہے کہ فوج اور ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے درمیان ابتدائی غیر رسمی رابطے حقانی نیٹ ورک کی سہولت کاری کے تحت مشرقی صوبہ خوست میں کیے گئے تھے۔
دوسری سطح پر ٹی ٹی پی اور فاٹا کے سابق علاقے اور مالاکنڈ ڈویژن کے قبائلی وفود کے درمیان ملاقاتیں ہوئیں۔ تیسرے درجے پر ٹی ٹی پی اور پاکستان کی سیاسی قیادت کے درمیان مذاکرات ہوئے۔
جولائی میں مذاکرات کے معطل ہونے سے پہلے پاکستان نے بااثر دیوبندی عالم مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں ٹی ٹی پی کو اپنے سخت مطالبات میں کچھ لچک دکھانے پر قائل کرنے کے لیے علمائے کرام کا ایک وفد بھیجا جس کا زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔
اس سے پہلے اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ طالبان کی ثالثی میں مذاکرات شروع کیے تھے اور نومبر 2021 میں ایک ماہ کی مشروط جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔
تاہم پیچیدہ اختلافات کی وجہ سے ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کو ختم کر دیا اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف دوبارہ حملے شروع کر دیے۔
فی الحال مذاکرات باضابطہ طور پر جنگ بندی کے خاتمے یا دونوں طرف سے امن مذاکرات کے خاتمے کے بغیر معطل ہیں۔
دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے خلاف دوبارہ حملے شروع کر دیے ہیں۔ ٹی ٹی پی سابق فاٹا کے علاقے اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے کچھ حصوں میں انتقامی حملوں کی آڑ میں حملے کر رہی ہے۔ دریں اثنا پاکستانی فوج کا موقف ہے کہ اس کی کارروائیاں ٹی ٹی پی کے حملوں کا جواب ہیں۔
امن مذاکرات تین اہم وجوہات کی بنا پر معطل ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ کابل میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد طالبان کی طرف سے پاکستان پر اعتماد میں فقدان ہے- طالبان نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں کے لیے اپنی فضائی حدود کی اجازت دی ہے۔
اعتماد کی اس کمی کی وجہ سے طالبان اپنے اندرونی معاملات سلجھانے میں مصروف ہیں۔ فی الحال وہ مستقبل قریب کے لیے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کے لیے تیار نہیں ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی نے افغانستان کے مختلف حصوں میں اپنے چار رہنماؤں کی پراسرار ہلاکت کے بعد پاکستان سے آنے والے وفود کے ساتھ اپنی بات چیت روک دی ہے۔ ٹی ٹی پی ان ہلاکتوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتی ہے۔
انسداد دہشت گردی کے کچھ ماہرین ان ہلاکتوں کی وجہ ٹی ٹی پی کے اندرونی گروہی اختلافات کو قرار دیتے ہیں۔ یہ رہنما پاکستانی ریاست کے ساتھ غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی اور کھلے عام امن مذاکرات کی مخالفت کر رہے تھے۔ بہر حال ان کی ہلاکتوں نے ٹی ٹی پی کو مذاکرات معطل کرنے پر مجبور کر دیا۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ طالبان کے وزیر داخلہ سراج حقانی اور سابق کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی ذاتی کوششوں سے امن مذاکرات شروع ہوئے۔ دونوں نے مل کر کام کیا اور دونوں کے مابین اچھے تعلقات ہیں۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ سراج پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بندی کے ضامن تھے۔ خالد خراسانی اور ٹی ٹی پی کے دیگر رہنماؤں کی ہلاکتوں نے سہولت کار کے طور پر ان کی حیثیت کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے ان مذاکرات میں مزید ثالثی کرنے سے انکار کر دیا۔
اسی طرح فیض حمید کا تبادلہ اگست میں بہاولپور کردیا گیا۔ اس پیش رفت کے نتیجے میں امن مذاکرات معطل ہو گئے۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ پاکستان فوج اس وقت اہم قیادت کی منتقلی سے گزر رہی ہے۔ چھ لیفٹیننٹ جنرل 30 ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور اتنے ہی میجر جنرلز کو ترقی دے کر ان کی جگہ تعینات کیا جائے گا۔
اسی طرح موجودہ آرمی چیف نومبر میں ریٹائر ہو جائیں گے اور آنے والے ہفتوں میں ان کا جانشین نامزد کر دیا جائے گا۔ پاکستانی فوج میں قیادت کی اس اہم تبدیلی کے درمیان یہ واضح نہیں ہے کہ نئے آرمی چیف کا ٹی ٹی پی اور امن مذاکرات کی طرف کیا نقطہ نظر ہو گا۔
اس لیے پاکستان فوج کی جانب سے امن مذاکرات کو ختم کرنے یا دوبارہ شروع کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد ہی وضاحت سامنے آئے گی۔.
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان بڑے اختلافات امن معاہدے کی شرائط پر تھے۔ پاکستان نے ٹی ٹی پی کو کچھ لچک دکھانے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔
ٹی ٹی پی نے علاقے میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ سابق فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
اسی طرح ٹی ٹی پی امن معاہدے پر دستخط کے بعد اپنے تنظیمی ڈھانچے کو اسلحہ سمیت برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ نیز ٹی ٹی پی اپنے تمام قیدیوں کی غیر مشروط رہائی اور بے گھر خاندانوں کے لیے مالی معاوضے کا مطالبہ کر رہی تھی۔
اس کے برعکس پاکستان نے ٹی ٹی پی پر زور دیا کہ وہ سابق فاٹا کے انضمام کو واپس لینے کا مطالبہ ترک کرے۔ اسی طرح پاکستان چاہتا تھا کہ ٹی ٹی پی خود کو غیر مسلح کرے، اپنے تنظیمی ڈھانچے کو تحلیل کرے اور ایک نئی سیاسی جماعت کے طور پر کام کرے اور پاکستانی آئین کا احترام کرے۔
پاکستان کے لیے قانونی اور آئینی فریم ورک سے باہر کوئی ڈیل ممکن نہیں تھی۔ سابق فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام اور ٹی ٹی پی کے تنظیمی ڈھانچے کی تحلیل پاکستان کے اہم مطالبات تھے۔
جیسے ہی اور جب بھی امن کا عمل دوبارہ شروع ہوگا مذاکرات کی بحالی کے لیے نئی کوششوں کی ضرورت ہوگی۔
امن مذاکرات کے نتائج سے قطع نظر، دہشت گردی نے پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں اپنا بدصورت سر اٹھانا شروع کر دیا ہے اور اس سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے انسداد دہشت گردی کی نئی پالیسی کی ضرورت ہے۔
مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں محقق ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔