طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ اخوندزادہ نے اپنی حکومت کے تمام عہدیداروں کو ان کے نظام کو بدنام کرنے والی ویڈیوز کو سختی سے روکنے کا حکم دیا ہے۔
’ایسی ویڈیوز اور تصاویر کو روکیں جن کا مقصد نظام کو بدنام کرنا ہو۔ مجرموں کو گرفتار کریں اور انہیں سزا دیں۔ ایسی ویڈیوز ریکارڈ نہ کریں اور دوسرے مجاہدین سے بھی کہیں کہ وہ اس سے گریز کریں۔‘
اپنی حکومت کے اہلکاروں سے ایک ملاقات میں انہوں نے ان سے حکومت کے گذشتہ ایک سال کے دوران شریعت کا کتنا نفاذ ہوا ہے اس کا حساب بھی طلب کیا ہے۔
یہ بات تجزیہ کاروں کے مطابق انہوں نے خواتین کے احتجاج پر سکیورٹی اداروں کے تشدد کی ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل پنج شیر میں قیدیوں کے قتل کی مبینہ ویڈیوز نے ہلچل مچا دی تھی اور طالبان نے کہا تھا کہ وہ اس کی تحقیقات کریں گے۔
ادھر ہمسایہ ملک ایران بھی ایک خاتون کی ہلاکت کے بعد اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔
طالبان سربراہ نے طالبان حکومت کے عہدیداروں سے بھی کہا کہ وہ اس کی تمام شقوں بالخصوص خواتین کے حقوق سے متعلق فرمان پر مکمل عمل درآمد کریں۔ ’میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ خواتین سے متعلق میرے حکم نامے کو اس کی تمام چھ دفعات کے ساتھ نافذ کریں اور میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ کسی بھی قیمت پر احکامات پر عمل کریں۔‘
ملا ہبت اللہ نے یہ درخواست پیر کو طالبان حکومت کے انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے متعدد اہلکاروں، انٹیلی جنس کے سربراہوں، طالبان حکومت کے جج اور انتظامیہ کے سربراہان سے ملاقات میں کی۔
اجلاس میں امارت اسلامیہ کے چیف جسٹس شیخ الحدیث مولوی عبدالحکیم، انتظامی امور کے قائم مقام سربراہ شیخ مولوی نورالحق انور، جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کے آپریشنل ڈپٹی ملا تجمیر جواد اور ملک کے تمام 34 صوبوں کے انٹیلی جنس محکموں کے سربراہان نے شرکت کی۔
ہبت اخندزادہ نے طالبان حکومت کے انٹیلی جنس اہلکاروں کو بتایا کہ انٹیلی جنس براہ راست قیادت سے ہدایات لے گی، ’نظام کی بنیادوں کو مضبوط کرے گی اور ان کے مطابق، ’دشمنوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان کی وزارت خارجہ کے دفتر نے اپنے ٹوئٹر پیج پر لکھا ہے کہ ان کے رہنما نے اس اجلاس میں اپنے انٹیلی جنس اہلکاروں کو سختی سے مشورہ دیا کہ وہ ’ویڈیوز اور تصاویر کو بند کریں‘ کیونکہ ان کے مطابق یہ ویڈیوز نظام کو بدنام کرتی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ان ویڈیوز کے مجرموں کو ’پکڑ کر سزا دی جانی چاہیے۔‘
ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اپنے انٹیلی جنس اہلکاروں سے یہ بھی کہا کہ وہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں، انہیں شک کی بنیاد پر لوگوں کو گرفتار نہیں کرنا چاہیے اور اگر کسی کو ’معتبر وجوہات‘ کی بنیاد پر گرفتار کیا جاتا ہے تو اسے فیصلوں کے لیے عدالتوں میں لے جانا چاہیے۔
چار گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں شرعی قانون کے نفاذ اور ان کے مطابق گناہ، بے حیائی اور فحاشی کی روک تھام پر زور دیا گیا۔
ملا ہبت اللہ اخوندزادہ نے حقوق نسواں کے حوالے سے اپنے چند سابق احکامات کا ذکر کیا تھا، جن میں عورتوں کے بعض شرعی اور قانونی مسائل جیسے شادی، جہیز اور انصاف کا ذکر کیا گیا تھا، لیکن ان کے کام کے حقوق اور تعلیم کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا تھا۔
یہ وہ نکات ہیں جن پر بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے گروپ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ان سے عمل درآمد کے لیے اصرار کر رہے ہیں۔
طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مناسب حالات فراہم کرنے کے بعد وہ خواتین کو سرکاری اداروں میں کام کرنے اور چھٹی جماعت سے اوپر کے سکولوں میں جانے کی اجازت دیں گے۔
طالبان، امریکہ رابطہ
سی این این کی رپورٹ کے بعد افغان نیوز چینل طلوع نیوز نے بھی امارت اسلامیہ کے ذرائع کے حوالے سے تصدیق کی ہے کہ امارت اسلامیہ کے ایک وفد نے دوحہ میں امریکی حکام سے گذشتہ ہفتے ملاقات کی۔
القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی کابل میں ہلاکت کے بعد امریکہ اور امارت اسلامیہ کے عہدیداروں کے درمیان یہ تین میں ماہ میں پہلی ملاقات تھی۔
خبر کے مطابق امارت اسلامیہ کے وفد میں انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ، وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کے نمائندے شامل تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ امریکی وفد میں افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی، سی آئی اے کے ساتھ ساتھ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور محکمہ دفاع کے نمائندے بھی شامل تھے۔