انڈین سپریم کورٹ کا تعلیمی اداروں میں حجاب پر منقسم فیصلہ

درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے متعدد وکیلوں نے اصرار کیا تھا کہ مسلم لڑکیوں کو حجاب پہن کر کلاس روم میں جانے سے روکنے سے ان کی تعلیم خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ وہ کلاس میں جانا بند کر سکتی ہیں۔

15 فروری 2022 کو حیدرآباد میں کرناٹک کے کچھ تعلیمی اداروں کی جانب سے حجاب پہننے والی طالبات کو داخلے سے منع کیے جانے کے بعد احتجاج کے دوران مسلم ویمن ایسوسی ایشن کی ایک رکن ایک پلے کارڈ تھامے سڑک کے کنارے دیگر لوگوں کے ساتھ کھڑی ہیں(اے ایف پی/نوح سیلم)

انڈیا کی سپریم کورٹ نے جمعرات کو کرناٹک میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے معاملے پر منقسم فیصلہ سنایا ہے۔ 'اختلاف رائے' کے پیش نظر عدالت نے مناسب ہدایات کے لیے اس معاملے کو چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے رکھنے کی ہدایت دے دی ہے۔

جسٹس ہیمنت گپتا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج دینے والی اپیلوں کو خارج کر دیا جبکہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے ان کو سماعت کے لیے منظور کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔

جسٹس گپتا جنہوں نے سب سے پہلے اپنا فیصلہ پڑھا، بالکل شروع میں کہا کہ ’رائے کا اختلاف ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے 11 سوالات بنائے ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے کہ کیا سبریمالا معاملے کے ساتھ اپیل کی سماعت کی جائے جو نو ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے زیر التوا ہے۔

سوالات میں یہ شامل تھا کہ کیا کالج انتظامیہ طلبہ کے یونیفارم کے بارے میں فیصلہ کر سکتی ہے اور کیا حجاب پہننے پر پابندی آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل 25 کے تحت ضمیر اور مذہب کی آزادی کا کیا دائرہ اور دائرہ کار ہے؟

ایک بھارتی عدالت نے ریاست کرناٹک میں اس سال مارچ میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ فیصلہ ایک بڑی مسلم اکثریت والے ملک کے باقی حصوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے کاز لسٹ کے مطابق جسٹس ہیمنت گپتا اور سدھانشو دھولیا پر مبنی دو رکنی بنچ نے جمعرات کو اس معاملے میں فیصلہ سنایا۔ بنچ نے 10 دن تک اس معاملے میں دلائل سننے کے بعد 22 ستمبر کو درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

کرناٹک میں پانچ فروری 2022 کو تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب لینے پر پابندی لگا دی گئی تھی جس کے خلاف مسلمان طلبہ اور ان کے والدین نے احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔

ان مظاہروں کی مخالفت میں ہندو طلبہ نے بھی احتجاج شروع کر دیا جس کی وجہ سے حکام اس ماہ کے آغاز میں تعلیمی ادارے بند کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

یہ تنازع اس تنقید کا باعث بنا کہ ملک میں مسلمانوں کو مزید پسماندہ کیا جارہا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ میں دلائل کے دوران درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے متعدد وکیلوں نے اصرار کیا تھا کہ مسلم لڑکیوں کو حجاب پہن کر کلاس روم میں جانے سے روکنے سے ان کی تعلیم خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ وہ کلاس میں جانا بند کر سکتی ہیں۔

کچھ وکلا نے یہ بھی استدلال کیا تھا کہ اس معاملے کو پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیج دیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری طرف، ریاست کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے دلیل دی تھی کہ کرناٹک حکومت کا حکم جس نے حجاب پر تنازعہ کھڑا کیا تھا وہ ’مذہبی طور پر غیر جانبدار‘ فیصلہ تھا۔

ہائی کورٹ کا فیصلہ

کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتو راج اوستی نے فیصلے میں کہا کہ ’ہماری رائے ہے کہ مسلم خواتین کا حجاب پہننا ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے۔‘

انہوں نے حکم کو چیلنج کرنے والی مختلف درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یکساں رہنما اصول تجویز کرنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہے۔

فیصلے سے قبل کرناٹک کے حکام نے سکولوں اور کالجوں کو بند کرنے کا اعلان کیا اور ممکنہ مشکلات کے تدارک کے لیے ریاست کے کچھ حصوں میں عوامی اجتماعات پر پابندیاں عائد کر دیں۔

وفاقی وزیر داخلہ امت شاہ نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ طلبا کسی مذہبی لباس کی بجائے یونیفارم کو ترجیح دیں۔

حجاب پر پابندی کو عدالت میں چیلنج کرنے والے طلبہ نے کہا تھا کہ حجاب پہننا بھارت کے آئین کے تحت ایک بنیادی حق اور اسلام کا لازمی عمل ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین