امریکہ میں ٹیکنالوجی کے شعبے کے ارب پتی تاجر جیف بیزوس کہتے ہیں کہ وہ 50 سال پہلے امریکی خلائی ادارے ناسا کے اپالو مشن 11 کے تحت خلانورد نیل آرمسٹرانگ اور بز آلڈرن کو چاند پر قدم رکھتے ہوئے دیکھ کر نجی شعبے میں خلائی سفر کی دوڑ میں شامل ہونے کی طرف مائل ہوئے۔
جیف بیزوس نے 20 جولائی 1969 کو چاند پر اترنے کے مشن کا حوالہ دیتے ہوئے سی بی ایس نیوز کو بتایا: ’ان کے اندر بھی خلائی سفر کے جراثیم پیدا ہو گئے ہیں۔‘
جیف بیزوس کے مطابق: ’آپ خواہشات کے پیچھے نہیں جاتے بلکہ وہ آپ کا پیچھا کرتی ہیں۔ اس لیے میں خلا کے سفر کا خواب دیکھ رہا ہوں اور بڑے عرصے سے اس کی تیاری کررہا ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اگر ہم انسان اپنی تہذیب کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں خلا میں جانا ہوگا۔ ہم اپنے سیارے زمین کو تباہ کرنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ہم نے تحقیق کے لیے نظامی شمسی کے ہر سیارے میں روبوٹ بھیجے ہیں جو اچھی بات ہے۔ ہمیں زمین کو محفوظ بنانا ہے۔ ہم خلا کے وسائل کو استعمال میں لا کر ایسا کر سکتے ہیں۔ ‘
نصف صدی قبل امریکی خلا نوردوں نے چاند پر پہلے قدم رکھ کر سرد جنگ میں سوویت یونین کو ایک شکست دی تھی، تاہم خلائی صنعت کا منظر بہت مختلف دکھائی دیتا ہے۔ چین، بھارت اور یورپ ایک وقت میں امریکی بالادستی کو چیلنج کر رہے ہیں اور امریکہ میں کئی درجن نجی اداروں کی موجودگی میں تین بڑے اداروں کا خلائی سیاحت اور تحقیق کے شعبے پر غلبہ ہے۔ ان تین بڑے اداروں میں جیف بیزوس کی بلیو اویجن، رچرڈ برانسن کی ورجن گلیکٹک اور ایلون مسک کی سپیس ایکس نامی کمپنیاں شامل ہیں۔
اس ہفتے امریکہ کے مقتول صدر جان ایف کینیڈی کی بیٹی کیرولین کینیڈی کے ساتھ بیٹھے جیف بیزوس نے کہا: ’جو کچھ ہم آج کر سکتے ہیں، اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم طاقتور کمپنیوں کے کاندھے پر سوار ہیں۔‘
1962 میں جان ایف کینیڈی نے دہائی کے آخر تک چاند پر پہنچنے کے عزم کا یہ کہہ کر اظہار کیا تھا:’یہ ایک نیا علم ہے جسے حاصل کرنا ضروری ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیف بیزوس نے کہا کہ اس وقت وہ اور خلائی سیاحت کی دوسری کمپنیاں جو کچھ کر رہی ہیں صرف اسی صورت میں ہی ممکن ہے کہ ’کیونکہ سب کچھ اس سے پہلے ہو چکا ہے۔‘
اگر کوئی یہ سمجھے کہ ادھیڑ عمر کے ایک ارب پتی نے مالی فائدے کے لیے انتہا درجے کی انا پر مبنی خواہش کے ساتھ خلا کے سفر کا منصوبہ بنایا ہے تو اسے معاف کیا جا سکتا ہے لیکن 68 سالہ رچرڈ برانسن، 55 سالہ جیف بیزوس اور 48 سالہ ایلون مسک نے چند برس قبل ہی خلائی سفر کے منصوبے شروع کیے۔
دنیا کے امیر ترین شخص جیف بیزوس ای کامرس کی کمپنی کے شریک بانی ہیں۔ انہوں نے خلائی سفر کی کمپنی ’بلیو اوریجن‘ 2000 میں قائم کی، ایلون مسک نے 2002 میں ’سپیس ایکس‘ بنائی اور رچرڈ برانسن نے 2004 میں ’ورجن گلیکٹک‘ نامی کمپنی قائم کی۔
رچرڈ برانسن کو بھی اپالو مشنز دیکھ کر تحریک ملی۔ اس سال کے شروع میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ انسان کے چاند پر اترنے سے متاثر ہوئے اور ان کے اندر خلا میں جانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ ’جب میں جوان تھا تو میں نے اپالومشن کو بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن پر دیکھا اور اس سال مشن کی 50 ویں سالگرہ ہے جسے منانے کے لیے یہ سال بہت ہی عظیم ہے۔‘
خلائی تحقیق کے ماہر اور مشی گن یونیورسٹی میں انجینئرنگ کے پروفیسر آئن بوئیڈ کہتے ہیں کہ اگرچہ تینوں ارب پتی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں لیکن اس بات کا بہت امکان ہے ان پر ایک ہی طرح کی تشنگی کا غلبہ ہو۔
پروفیسر آئن بوئیڈ مزید کہتے ہیں کہ اپالو مشنز کے بعد برسوں اور دہائیوں میں سپیس شٹل پروگرام کی محدود کامیابی اور خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کو ملنے والے تھوڑے فنڈ کے پیش نظر یہ احساس موجود ہے کہ ایک موقع ضائع کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ایک نسل تھی جس نے لوگوں کو چاند پر اترتے دیکھا، لیکن تب انہیں ایک تشنگی کا احساس ہوا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ نتیجے کے طور پر شاید یہ قدرتی بات ہے کہ نجی شعبے کے تاجر جیف بیزوس، ایلون مسک اور رچرڈ برانسن اس تشنگی کو مٹانا چاہتے ہیں۔
پروفیسر آئن بوئیڈ نے مزید بتایا کہ وہ سائنسدانوں کے اُس گروپ میں شامل تھے جس سے خلائی سیاحتی کمپنی ’سپیس ایکس‘ کے قیام کے پہلے چند برسوں میں ایلون مسک نے خطاب کیا۔ وہ اُس وقت زیادہ مشہور نہیں تھے اور انہیں ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں کم ہی جگہ ملتی تھی۔ ’ان کی ملاقات ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوئی جو واقعی خلا میں دلچسپی رکھتا تھا۔‘
رچرڈ برانسن کا موجودہ منصوبہ چھ افراد اور عملے کے دو ارکان کو خلا میں بھیجنے کا ہے۔ ان افراد کو فضا میں 100 کلومیٹر کی بلندی پر خلا کے کنارے پر بھیجا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے دو خلائی جہاز استعمال ہوں گے جن میں ایک کا نام ’ وائٹ نائٹ ٹو‘ ہے، جو دوسرے خلائی جہاز وی ایس ایس یونٹی کو لے کر 50 ہزار فٹ کی بلندی تک لے جائے گا۔ اس کے بعد دونوں خلائی جہاز ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے۔ دوسرے خلائی جہاز سے ایک راکٹ انجن چھوڑا چھوڑا جائے گا جس کی رفتار چار ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی اور ایک اندازے کے مطابق یہ 110 کلومیٹر کی بلندی پر پرواز کرے گا۔ دوسرے خلائی جہاز کی زمین پر واپسی کے آغاز سے قبل اس میں سوار افراد پانچ منٹ کے لیے بے وزنی کی کیفیت محسوس کریں گے۔
ورجن گلیکٹک 2014 میں آزمائشی پرواز کے دوران مہلک حادثے کا شکار ہوگئی تھی جس میں پائلٹ ہلاک جبکہ کوپائلٹ بری طرح زخمی ہوگئے۔ اس خلائی جہاز نے فروری میں پائلٹ کے ساتھ پہلی کامیاب پرواز کی۔ یہ پرواز کیلی فورنیا کے موجیو (Mojave) صحرا میں کی گئی۔ پائلٹ ڈیو میکے اور مائیکل میسوسی اور خلانوردوں کو تربیت دینے والے بیتھ موسس 55.87 میل کی بلندی تک گئے۔
مزید پڑھیں: کیا امریکہ واقعی چاند پر جا چکا ہے؟
یہ پرواز گذشتہ دسمبر کی کسی بے نامی پرواز کے مقابلے میں زیادہ بلندی تک گئی اور اُس سے زیادہ بلندی پر تھی جسے امریکی فضائیہ ’خلا‘ قرار دیتی ہے۔ اگرچہ اس پرواز نے 62 میل کی وہ حد پار نہیں کی تھی، جسے کرمن لائن کہا جاتا ہے۔ خلائی سفر کی بین الاقوامی فیڈریشن اس بلندی کو ’خلا‘ قرار دیتی ہے۔
خلائی سفر کی تربیت دینے والے بیتھ موسس نے بعد میں کہا: ’یہ پرواز پرسکون، خوبصورت اور واضح تھی اور میں انتہائی بلند مقام تک پہنچنے میں کامیابی پر کاکٹ پٹ کے قریب اپنے پائلٹوں سے بہت خوش تھا۔ ہم سب کو یہ جادو محسوس ہوا تھا۔‘
ورجن گلیکٹک نے اس موسم گرما میں سرمایہ کار کمپنی سوشل کیپیٹل ہیدوسوفیہ کے ساتھ انضمام کا اعلان کر رکھا ہے، جس کے بعد اسے عام کر دیا جائے گا۔ ورجن گلیکٹک کے مطابق اس وقت اس کے کھاتوں میں چھ سو سے زیادہ لوگوں کے آٹھ کروڑ ڈالر کی رقم موجود ہے۔ ان چھ سو لوگوں میں ہر ایک دو لاکھ 50 ہزار ڈالر ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ کمپنی کے مطابق جتنی جلدی ہوسکے پہلی پرواز خلا میں روانہ کر دی جائے گی۔ رچرڈ برانس کو امید تھی کہ اپالو 11 کی سالگرہ کے موقع پر خلائی جہاز سفر پر روانہ ہو جائے گا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجوزہ خلائی سفر کرنے والے 600 افراد میں مشہور امریکی گلوکارہ جسٹس بیبر بھی شامل ہیں۔
تازہ منصوبے کے تحت عملے کو ایک کیپسول کے ذریعے تین لاکھ 70 ہزار فٹ کی بلندی پر بھیجنے کے لیے جیف بیزوس دوبارہ قابل استعمال راکٹس کو کام میں لانا چاہتے ہیں۔ یہ راکٹ زمین پر موجود لانچنگ پیڈ پر واپس پہنچ سکتا ہے اور عملے کو کیپسول راکٹ سے الگ کرکے پیرا شوٹ کے ذریعے زمین پر اتارا جاتا ہے۔
کمپنی کے ترجمان نے امریکی میڈیا کو بتایا ہے کہ اس سال موسم بہار میں ’نیو شیفرڈ‘ نام کا راکٹ دو بوسٹروں کے ساتھ 11 مرتبہ خلا میں گیا اور زمین پر واپس آیا۔
ایلون مسک کے منصوبے کئی لحاظ سے پرکشش ہیں۔ ان کے دوبارہ قابل استعمال سپیس ایکس راکٹ پہلے ہی بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر موجود ہیں۔ جنوبی افریقی نژاد تاجر لوگوں کو مریخ پر بھیجنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان کا منصوبہ لوگوں کو سرخ سیارے پر بھیجنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ یہ بہت بڑا منصوبہ ہے جس کے بارے میں سائنسدانوں کو شبہ ہے کہ 2026 سے پہلے ایسا ممکن نہیں ہے۔
ایلون مسک پر کئی بار الزام لگایا گیا ہے وہ ایسے دعوے کرتے ہیں، جنہیں وہ ثابت نہیں کر سکتے۔
خبروں اور معلومات کی ویب سائٹ ایکسیوس کے مطابق ایلون مسک نے گذشتہ برس ٹیلی ویژن چینل ایچ بی او کو بتایا کہ وہ اس بات کا 70 فیصد امکان دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنے سپیس ایکس راکٹوں میں سے ایک پر سوار ہو مریخ تک پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے کہا: ’مجھے ٹھیک ٹھیک معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے۔ میں مریخ پر جانے کی بات کر رہا ہوں۔‘
جیف بیزوس نے بھی انسانوں کو دوسرے سیاروں پر بھیجنے کی بات کی ہے۔ گذشتہ سال ’وائرڈ میگزین‘ کی 25 ویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ نظامِ شمسی کو ایک کھرب لوگوں سے آباد دیکھنے کی امید رکھیں۔ انہوں نے کہا: ’لوگ اس ٹھوس حقیقت کے ساتھ سر پٹخ رہے ہیں کہ زمین محدود ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ برانسن، بیزوس، مسک اور دوسروں کے نجی خلائی منصوبے نہ صرف ٹیکنالوجی اور سائنس کے لیے نئے چیلنج بن کر ابھرے ہیں بلکہ قانون جیسے شعبوں کے لیے بھی ایک چیلنج ہیں۔ پروفیسر آئن بوئیڈ کہتے ہیں کہ اس وقت امریکہ کی فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی کے پاس نجی شعبے کے خلائی سفر کے حوالے سے کوئی ضابطہ موجود نہیں ہے۔ صرف یہ ہو سکتا ہے کہ ان منصوبوں پر پابندی لگا دی جائے جو اس سے پہلے ناکام ہو چکے ہیں۔ رچرڈ برانسن کا مؤقف ہے کہ فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی ان کی کمپنی کو تجارتی بنیادوں پر خلا کے سفر کا اجازت نامہ جاری کرچکی ہے۔
ماہرین کے مطابق خلا سے متعلق معاہدہ اقوام متحدہ کی ایک قرار داد کے تحت ہوا، جو سب سے پہلے 1967 میں منظور کی گئی تھی، جس کے تحت ایٹمی ہتھیار خلا میں رکھنے پر پابندی ہے لیکن اس میں دوسری تفصیل کی کمی ہے۔
پھر یہ سوالات بھی ہیں کہ دوسرے سیاروں تک پہنچنے میں جلدی کا ہماری زمین پر کیا اثر پڑے گا ؟ بعض افراد نے کہا ہے کہ ’اس تجویز سے کہ انسان مریخ جیسے سیاروں تک پہنچ سکتا ہے، زمین پر موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے نمٹنے کی کوششیں متاثر ہوں گی۔‘
پین سٹیٹ یونیورسٹی میں موسمیاتی تبدیلی اور ارضیاتی علوم کے ماہر مائیکل من نے کہا ہے: ’میں نے تصدیق کی ہے کہ ایلون بیزوس نے اپنی ویب سائٹ پرماہرِ فلکیات کارل سیگن کی تحقیق کو اکٹھا کر دیا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ وہ پڑھیں کہ کارل سیگن نے اجرام فلکی کے بارے میں کیا کہنے کی کوشش کی؟‘
’کارل سیگن کو کسی بھی دوسرے شخص کی طرح خلائی تحقیق بہت پسند تھی۔ انہوں نے سوچ لیا تھا کہ بالآخر ہم کائنات میں سفر کریں گے لیکن انہوں نے مستقبل قریب میں ایسے کسی منصوبے کی کامیابی کے امکانات کے بارے میں کوئی بات چھپائی نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنی زندگی کا باقی حصہ زمین کے تحفظ کی وکالت کرنے میں گزارا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ایلون بیزوس کو کارل سیگن کے معقول مشورے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے مالی وسائل اور کوششیں ماحول کے تحفظ اور خاص طور پر لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بچانے میں صرف کریں۔ اس طرح وہ حقیقت میں طے کردہ اہداف کے حصول میں کامیاب ہوں گے۔‘
© The Independent