پشاور کی سکواش چیمپیئن بہنیں

ان بہنوں میں سب سے بڑی بہن مہوش علی کہتی ہیں کہ انہوں نے سکواش اس لیے کھیلنا شروع کیا کیونکہ یہ ایک ان ڈور گیم ہے اور خواتین کے لیے زیادہ محفوظ ہے، جس کے بعد وہ اپنی چھوٹی بہنوں کو بھی اس کھیل میں لائیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والی تین بہنیں مہوش علی، ماہ نور او سحرش سکواش میں چیمپیئن بن گئی ہیں۔

مہوش اور ماہ نور ملکی سطح پر اب تک کئی ٹائٹل اور میڈلز اپنے نام کر چکی ہیں۔ مہوش انڈر 17 میں ہونے کے باوجود انڈر 19 میں کھیلیں اور پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ وہ چار سال سے سے سکواش کھیل رہی ہیں اور ساتھ ہی ان کی دو بہنیں بھی اسی کھیل سے وابستہ ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’میں نے سکواش کھیلنا اس لیے شروع کیا کیونکہ سکواش ایک اِن ڈور گیم ہے اور خواتین کے لیے زیادہ محفوظ ہے۔‘

’مجھے تو شوق سوئمنگ کا تھا، میں اپنے والد کے مشورے پر سکواش میں آئی۔ میرے والد خود بیڈ منٹن کے کھلاڑی تھے، اسی وجہ سے انہوں نے مجھے سکواش کھیلنے کا مشورہ دیا۔‘

ایک سوال کے جواب میں مہوش نے بتایا کہ سکواش شروع تو انہوں نے اپنے والد کی پسند سے کیا لیکن اس میں پھر خود اتنی محنت کی کہ وہ انڈر 11، انڈر 13 اور انڈر 15 میں نمبر ون پوزیشن پر رہی ہیں۔

بقول مہوش: ’سکواش میں خیبر پختونخوا کا نام پوری دنیا میں سر فہرست ہے۔ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے مشہور ناموں کو دیکھ کر ہم نے سکواش کھیلنا شروع کیا۔ جب سکواش شروع کیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ ایک تو ماحول بہت اچھا تھا، دوسرا مجھے کھیلنے کے بعد اس میں کافی دلچسپی ہو گئی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سکواش میں اپنی بہنوں کو بھی آنے کی دعوت دی۔‘

سکواش میں اپنے آئیڈیل کھلاڑی کے حوالے سے مہوش نے بتایا کہ ’خیبرپختونخوا میں سکواش کے سارے نامور کھلاڑی موجود ہیں، جیسا کہ جان شیر خان، قمر زمان، جہانگیر خان۔ انہوں نے ملک اور صوبے کا نام روشن کیا ہے۔ ان سب سے متاثر ہو کر ہی ہم نے سکواش میں محنت کی۔‘

بیرون ملک مقابلوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا: ’انٹرنیشنل سطح پر ابھی تک میں نے تھائی لینڈ میں ایشیئن جونیئر ٹورنامنٹ کھیلا ہے اور آئندہ ماہ ملائیشیا جا رہی ہوں۔ اللہ سے دعا گو ہوں کہ اپنے ملک کا نام سرخرو کرنے میں میری مدد کرے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مہوش علی نے پشتون معاشرے میں خواتین کے گیمز کی اہمیت کے بارے میں بتایا کہ ’پشتون معاشرے میں خواتین کو گیمز میں اتنا سپورٹ نہیں کیا جاتا، میری خواہش ہے کہ میں خیبر پختونخوا میں سپورٹس ویمن کی آواز بنوں۔

’میں چاہتی ہوں کہ لوگوں کو یہ بتاؤں کہ گیمز خواتین بھی کھیل سکتی ہیں، ہمارے ملک میں خواتین بھی مردوں سے کم نہیں، اگر آپ ان کو مکمل سپورٹ دیں تو وہ بھی آگے جا سکتی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ جیسے خیبرپختونخوا میں مردوں نے نام بنایا ہے، سکواش میں بھی اسی طرح خواتین اپنا نام بنا سکتی ہیں۔ ’ابھی تو میں دیکھ رہی ہوں کہ خیبر پختونخوا میں پشاور، چارسدہ اور دیگر جگہوں سے خواتین کو سپورٹ مل رہی ہے، کیونکہ الحمد اللہ لوگ تعلیم یافتہ اور با شعور ہو چکے ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’والدین اگر اپنے بچوں کو تعلیم اور کھیل دونوں میں سپورٹ کریں تو بچے دونوں کرسکتے ہیں۔ میں خود تعلیم بھی حاصل کر رہی ہوں اور سپورٹس بھی ساتھ لے کر چل رہی ہوں۔ سپورٹس سے آپ دماغی او جسمانی دونوں طرح سے مضبوط  ہوتے ہیں، انسان میں خود اعتمادی آتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ جب میں چھوٹی تھی تو انٹرویو تو دور کی بات، میں کسی سے بات کرنے سے بھی ڈرتی تھی۔ سپورٹس سے مجھ میں خود پر اعتماد آیا کہ میں کسی کے سامنے آسانی سے بات کرسکتی ہوں۔

دوسری جانب مہوش کی چھوٹی بہن ماہ نور جن کی عمر دس سال ہے اور انڈر 11 آل پاکستان میں نمبر ون ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کچھ روز پہلے کراچی میں انڈر 15 جونیئر سرکٹ میچز ہوئے تھے، اس میں بھی وہ نمبر ون رہی تھی۔

’میں نے اپنی ہی بہن کو شکست دی تھی، وہ دوسری پوزیشن پر ہیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’میرا فیورٹ کھلاڑی حمزہ خان ہے۔ ان کی گیم بہت اچھی ہے اور مجھے بہت پسند ہے۔‘

’مہوش جو میری بڑی بہن ہیں وہ ہمیشہ میرے ساتھ کھیلتی ہیں، سکھاتی ہیں اور سپورٹ بھی کرتی ہیں۔ میری بڑی بہن کھیلتی تھی تو میں نے سوچا کہ میں بھی کھیلوں۔‘

ماہ نور نے بتایا کہ جب میری بڑی بہن نے ٹائٹل جیتا تو میرا بھی شوق بڑھا اور اب میں بھی نمبر ون ہوں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین