سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پاکستان تحریک انصاف کے بعض سینیئر رہنماؤں، سوشل میڈیا اور ماحول کے لیے کام کرنے والے رضا کاروں کی سخت تنقید کے بعد اپنا متنازعہ نوٹیکفیشن واپس لے لیا جس کے تحت اندرون و بیرون ملک سفر کرنے والے ہر مسافر کے لیے اپنے چیک اِن سامان کی پلاسٹک کی حفاظتی پیکنگ کروانا ضروری تھا۔
انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اتوار کی رات اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے نوٹیفیکیشن واپس لیے جانے سے متعلق آگاہ کیا۔
The incorrect notification withdrawn - as I had said this morning it was never a federal govt decision. Will ask to have an inquiry as to how and who in CAA put out such a notification. All bureaucracy should know that Federal Govt means Cabinet! This issue never discussed! pic.twitter.com/5cpbWJb5rP
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) July 21, 2019
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس معاملے کی جانچ کرانے کا کہیں گی تاکہ معلوم ہو سکے کہ سی اے اے کے کس افسر نے یہ نوٹیفکیشن نکالا۔ ’پوری بیوروکریسی کو معلوم ہونا چاہیے کہ وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہوتا ہے، اور یہ معاملہ وہاں زیر بحث نہیں آیا تھا۔‘
شیریں مزاری کے علاوہ پی ٹی آئی کے ایک اور سینئر رہنما جہانگیر ترین نے بھی اس نوٹیفکیشن پر ناگواری کچھ یوں ظاہر کی تھی۔
Just came across a very illogical notification issued by the CAA. Forcing passengers to wrap their luggage is not on. People should have the right to decide whether they want their luggage wrapped or not. The notification should be withdrawn asap. pic.twitter.com/lEyFhOcAJR
— Jahangir Khan Tareen (@JahangirKTareen) July 21, 2019
چیک اِن سامان وہ ہوتا ہے جو مسافر جہاز کے کیبن میں اپنے ساتھ رکھنے کے بجائے جہاز کے نچلے خانے میں لوڈ کرواتے ہیں اور جس کی الگ سے انٹری کروائی جاتی ہے۔
اس پلاسٹک پیکنگ کو ضروری قرار دیے جانے سے پہلے بھی ہوائی اڈوں پر یہ سہولت موجود ہے اور بیشتر مسافر اپنے سامان کی حفاظت کے لیے پلاسٹک کے تھیلے سے پیکنگ بھی کرواتے ہیں، لیکن ایسا کرنا ہر مسافر کی اپنی صوابدید پر ہوتا ہے۔
تاہم سول ایوی ایشن کے اس نوٹیفکیشن کے بعد ہر مسافر کو اپنے چیک اِن سامان کی پیکنگ لازمی ہو گئی تھی۔
پیکنگ کس کمپنی نے کرنی تھی؟
سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہوئے پیکنگ کو لازمی قرار دینے والے سی اے اے کے اعلامیے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی تھا کہ اس پر ایک نام شاہد لطیف کا بھی درج ہے، جنہیں ’ایئر سائرو‘ نامی کمپنی کا چیف ایگزیکٹو افسر لکھا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ کہیں یہ کمپنی سابق ایئرمارشل شاہد لطیف کی تو نہیں؟ ایئر مارشل (ریٹائرڈ) شاہد لطیف پچھلے کچھ عرصے سے ٹی وی سکرینوں پر بطور تجزیہ کار نظر آتے ہیں اور گذشتہ حکومت کے سخت ناقدین میں سے ایک سمجھے جاتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو نے جب ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا ’یہ کمپنی ان کے مرحوم بھائی کی ہے جنہوں نے انہیں اس کمپنی کا نگران نامزد کیا تھا اور بھائی کی وفات کے بعد اب وہی اس کے معاملات دیکھ رہے ہیں۔‘
پلاسٹک پیکنگ کے ٹھیکے کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ یہ ٹھیکہ ان کے بھائی نے حاصل کیا تھا اور اس ٹھیکے کی باقاعدہ نیلامی ہوئی تھی۔
تاہم سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کافی چہ مگوئیاں ہوئیں۔ صحافی طلعت حسین نے اپنی ٹویٹ میں کہا ’شاہد لطیف اس فیصلے سے بہت زیادہ پیسہ بنائیں گے۔‘
پیکنگ سے کتنی کمائی متوقع تھی؟
سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ویب سائٹ پر موجود اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں مالی سال 18-2017 کے دوران بیرون و اندرون ملک ہوائی سفر کے لیے جہاز پر سوار ہونے والے مسافروں کی تعداد ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد تھی۔ ان افراد میں سے 74 لاکھ سے زائد بیرون ملک اور 36 لاکھ سے زائد مسافر اندرون ملک سفر کے لیے جہاز پر سوار ہوئے۔
اگر اسی تعداد کو دیکھا جائے اور فی مسافر فی بیگ 50 روپے لیے جائیں تو یہ آمدنی سالانہ 55 کروڑ، 34 لاکھ روپے سے زائد ہوتی۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر مسافر اپنا سامان چیک اِن کرے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ فی مسافر ایک ہی بیگ ہو کیونکہ کچھ ایئرلائنز دو بیگ بغیر کسی اضافی خرچ کے ساتھ لے جانے کی اجازت بھی دیتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر تنقید
سوشل میڈیا پر چند لوگوں نے جہاں اسے سامان کی حفاظت کے لیے اچھا قدم قرار دیا، وہیں اس فیصلے کی افادیت اور اس سے جڑے مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی۔
ایک صارف منتقیٰ پراچہ کے مطابق ’پیکنگ کی قیمت سب سے آخری مسئلہ ہے کیونکہ لوگ حفاظت کے لیے قیمت ادا کر سکتے ہیں مگر اس وقت کیا ہو گا جب ایک ساتھ کئی پروازیں ہوں گی۔ ایسے میں پروازوں کی تاخیر اور جرمانوں کا ذمہ دار کون ہو گا؟‘
Price is the least of our concern. People can pay for their safety. What happens when there are multiple flights? Who pays for flight delays and penalties? For passenger time lost? For added cost for ppl who now have to stay extra day cuz they missed flight due to long line?
— Muntaqa Peracha (@muntaqa) July 20, 2019
صحافی عافیہ سلام نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا اور کہا ’اس فیصلے کی وجہ سے مسافروں کو کتنا مزید جلدی ایئرپورٹ آنا ہو گا کیونکہ ہر فلائٹ پر 300 سے زائد مسافر ہوتے ہیں اور سب کو اپنا سامان پیک کروانا پڑے گا۔‘
Besides, how much earlier will people have to reach the airport to get it done so all passengers of the flight do it .2 check in, one hand carry each...300 plus pax in each flight... Several flight with parallel departure times ? What a genius move! @official_pcaa @TahirImran pic.twitter.com/hRXynwllDG
— afia salam (@afiasalam) July 20, 2019
انہوں نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں پلاسٹک کے استعمال سے ماحول پر ممکنہ اثرات پر اس فیصلے کے خلاف عدالت میں جانے کا حوالہ بھی دیا تھا۔
Any lawyers up to filing a #PublicInterestLitigation again making this mandatory #plasticwaste generation at airports? @rafay_alam @SalAhmedPK @laalshah @saramalkani @LegalPolitical @zfebrahim @MJibranNasir who else...? pic.twitter.com/9mNBqtgpTo
— afia salam (@afiasalam) July 20, 2019
راجہ خرم زاہد نامی ایک صارف نے انتہائی دلچسپ تبصرہ کیا کہ ’اب ایئرپورٹ پر بھی شاپر ڈبل کروانا پرے گا۔‘
اب ائیر پورٹ پر بھی شاپر ڈبل کروانا ہو گا۔ pic.twitter.com/OyKqwkQ29Q
— Raja Khurram (@rajakhurram203) July 20, 2019