کراچی میں 2012 میں قتل ہونے والے شاہ زیب خان کے قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو منگل کو 10 سال بعد رہا کر دیا گیا ہے۔
کیس کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی جس کے دوران ملزمان کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ فریقین کا پہلے ہی راضی نامہ ہو چکا ہے۔
انہوں نے دلائل میں عدالت کا بتایا:’ ملزمان کا دہشت پھیلانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، قتل کے واقعے کو دہشت گردی کا رنگ دیا گیا۔‘
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے شاہ رخ جتوئی اور شاہ زیب خان کے قتل میں ملوث دیگر ملزمان کو بھی بری کر دیا۔
شاہ زیب خان کو تلخ کلامی کے نتیجے میں تقریبا دس سال قبل 25 دسمبر 2012 میں فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔
سال 2013 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج کو سزائے موت جبکہ دیگر دو ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی جس کے بعد ان کے وکلا نے اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
شاہ زیب خان کے اہل خانہ نے سال 2017 میں دیت کے قانون کے تحت ملزم شاہ رخ جتوئی کو معاف کیا جس کے بعد انہیں رہا کیا گیا۔
معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے سال 2018 میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کی دوبارہ گرفتاری کا حکم دیا۔
سال 2019 میں سندھ ہائی کورٹ نے شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھی سراج تالپور کی سزائے موت کوعمر قید میں تبدیل کرنے جب کہ دو ملزمان کی عمر قید کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے عمر قید کی سزا ختم کرنے کی درخواست کی، جس پر آج سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی رہائی کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔
فیصلہ آنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ انہیں ’یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ شارخ جتوئی قتل میں ملوث تھا یا نہیں۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی شق سات تب عائد کی جاتی ہے جب ملزمان کا مقصد دہشت گردی کرنا ہوتا ہے۔
’آج سپریم کورٹ نے دہشت گردی کی دفعات ختم کیں جس کے تحت ملزمان رہا ہوئے ہیں۔ شاہ زیب خان کے خاندان کی شاہ رخ جتوئی سے صلح ہو چکی ہے، شاہ رخ کی عمر تب 18 سال تھی اب اسے اصلاح کا موقع ملنا چاہیے۔‘