پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے اعظم نذیر تارڑ پیر کو وفاقی وزیر قانون کے عہدے سے مستعفی ہو گئے اور اس بارے میں انہوں نے صرف اتنا ہی کہا کہ وہ ایسا ذاتی وجوہات کی بنا پر کر رہے ہیں۔
تاہم اعظم نذیر تارڑ کا استعفیٰ منظرعام پر آتے ہیں مختلف قیاس آرائیاں بھی شروع ہو گئیں جن میں کہا جانے لگا کہ کیا عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں وفاقی وزیر کی موجودگی میں اداروں کے خلاف نامناسب نعرے بازی یا جوڈیشل کمیشن اجلاس میں پچھلے موقف میں تبدیلی استعفے کی وجہ بنی۔
سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون نے اعظم نذیر تارڑ کے استعفے پر کہا کہ پیر کی صبح سے ہی یہ بات چل رہی تھی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے احسن بھون نے کہا کہ حکومت کی ایما تھی کہ چیف جسٹس کے منتخب دو ناموں کے حق میں ووٹ کرنا ہے جبکہ ذاتی طور پر اعظم نذیر تارڑ سینیارٹی کو نظر انداز کرنے کے خلاف ہیں۔
’اعظم نذیر تارڑ اصولوں کو مدنظر رکھنے والے ہیں اور بار کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جو ہوا اس معاملے پر بھی اعظم نذیر تارڑ پر کچھ حلقوں کی جانب سے دباؤ تھا کہ وہ پریس کانفرنس کریں اور عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے لاتعلقی کا ظاہر کریں۔ اعظم نذیر ایسا کرنا نہیں چاہتے تھے اس لیے مستعفی ہو گئے۔‘
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل فیصل چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ ن نے اعظم نذیر تارڑ کو استعمال کیا، اپنی مرضی کے جج لگوا لیے اور جب ان پر عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ہونے والے معاملات کا دباؤ آیا تو وہ اپنے وزیر کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکے۔‘
وائس چیئرمین پاکستان بار امجد شاہ نے اعظم نذیر تارڑ کے فیصلے کو سراہا اور کہا کہ وہ یہ فیصلہ 20 دن پہلے بھی کر سکتے تھے لیکن جس پارٹی نے انہیں وزیر بنایا ان کی پالیسی انہیں فالو کرنا تھی۔
امجد شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دو ججوں کی حمایت میں ووٹ دے کر انہوں نے (اعظم نذیر تارڑ) احسان چکا دیا ہے لیکن اپنے اصولوں کی وجہ سے استعفی دیا۔‘
یہاں اہم بات یہ ہے کہ استعفے سے قبل پیر کی شام کو وفاقی وزیر قانون جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں بھی شریک ہوئے اور چیف جسٹس پاکستان کے حمایت یافتہ دو ناموں کے حق میں ووٹ بھی دیا جبکہ گذشتہ اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے چیف جسٹس کے حمایت یافتہ نام سینیئر جج نہ ہونے کی وجہ سے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا بلکہ مخالفت کی تھی۔
اطلاعات کے مطابق منظور ہونے والے ناموں میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید سینیارٹی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہیں جبکہ سندھ ہائی کورٹ سے حسن اظہر سینیارٹی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہیں۔
استعفے کے مندرجات
پیر کو وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے صدر مملکت عارف علوی کو بھجوائے گئے استعفے میں لکھا کہ وہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں بطور وزیر قانون خدمات سرانجام دے رہے تھے پس اب وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر بطور وزیر اپنی خدمات سرانجام نہیں دے سکتے اس لیے وہ اپنی وزارت سے مستعفی ہو رہے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکاء کے ایک مختصر گروہ کی طرف سے ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی پر دکھ اور افسوس ہوا ہے۔ جذباتی نعرہ بازی کرنے والے حکومتی اقدامات اور اداروں کی کوششوں اور قربانیوں کو بھی بھول گئے۔ ہم سب ایک مضبوط پاکستان کے خواہاں ہیں
— Azam Nazeer Tarar (@AzamNazeerTarar) October 24, 2022
استعفی منظر عام پر آنے سے کچھ دیر قبل سابق وفاقی وزیر قانون نے ٹویٹ بھی کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکا کے ایک مختصر گروہ کی طرف سے ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی پر دکھ اور افسوس ہوا ہے۔‘
’جذباتی نعرہ بازی کرنے والے حکومتی اقدامات اور اداروں کی کوششوں اور قربانیوں کو بھی بھول گئے۔ ہم سب ایک مضبوط پاکستان کے خواہاں ہیں۔‘
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں کیا ہوا تھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاہور میں گذشتہ اختتام ہفتہ دو روزہ سالانہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں متعدد شرکا نے شرکت کی جس میں وکلا کی بڑی تعداد اور سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے ججز بھی شمل تھے۔
کانفرنس کے دوسرے روز پشتون تخفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کو بھی دعوت نامہ دیا گیا تھا۔ منظور پشتین نے اپنے خطاب کے دوران افواج پاکستان کے سربراہان اور جنریلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
منظور پشتین نے ’عوام کو فوج کے خلاف مزاحمت‘ کرنے کی ’ترغیب دی‘ اور کہا کہ اس کے بغیر حالات تبدیل نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ’فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں پشتونوں کی نسل کشی کی‘ ہے جس کے بعد ہال میں موجود پندرہ، بیس افراد نے فوج اور اداروں کے خلاف نعرہ بازی بھی کی۔
بعد ازاں چیچہ وطنی کے شہری محمد نعیم کی مدعیت میں سول لائنز پولیس نے منظور پشتین کے خلاف مقدمہ بھی درج کر دیا گیا۔