گذشتہ 30 سالوں سے موسیقی کا آلہ کلیرینٹ بجانے والے مردان کے لیاقت حبیب انور وقت کے ساتھ ساتھ کمائی کم ہونے کے باوجود اپنے ساز سے محبت کرتے ہیں۔
لیاقت نے بتایا کہ کلیرینٹ بجانا اور موسیقی کا شوق انہیں اپنے بزرگوں سے ملا۔
’میرے والد ایک اچھے موسیقار تھے وہ ڈھولک اور طبلہ اچھا بجاتے تھے جس کی وجہ سے مجھے بھی بچپن میں موسیقی کا شوق پیدا ہوا۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ بچپن میں والد سے چھپ کر گھر میں موجود موسیقی کے آلات بجاتے تھے کیونکہ والد کی خواہش تھی کہ وہ پڑھیں۔
’پڑھائی کے بعد میں نے کلیرینٹ بجانا سیکھ لیا اس کے علاوہ موسیقی کے دوسرے آلات بھی بجا لیتا ہوں۔‘
لیاقت نے بتایا کہ یہ یورپی آلہ ہے اور جرمنی میں بنتا ہے۔ ’یہ سیالکوٹ میں بھی ملتا ہے لیکن اصلی اور پائیدار کلیرینٹ جرمنی کا ہی ہے، جس کی قیمت 30 سے 40 ہزار روپے ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ خراب ہونے پر وہ خود مردان سے سیالکوٹ جا کر دوست کی مدد سے مرمت کرواتے ہیں۔
’پہلے نیا کلیرینٹ دستیاب تھا۔ اب نیا نہیں آ رہا اور لوگ اسے باہر سے منگواتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ہارمونینم میں تین ست تک، من ست تک، مندرست تک اور تارست تک ہوتا ہے اسی طرح اس میں بھی نوٹس ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس میں اتنی مٹھاس ہے کہ یہ قدیم زمانے میں بھی بہت مشہور تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اب بھی پشتو کے مشہور گلوکار خیال محمد، ہدایت اللہ اور شاہ ولی افغان کی موسیقی میں کلیرینٹ شامل ہوتا ہے۔
لیاقت حبیب نے بتایا کہ وہ اس سے پشتو، پنجابی اور سندھی گانے بجاتے ہیں۔
’ہمارے کام کا تعلق خوشی سے ہے۔ جہاں خوشی ہوتی ہے وہاں موسیقی ہوتی ہے لیکن وہ مقدس اسلامی مہینوں میں اسے نہیں بجاتے۔‘
محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ریٹائر ہونے والے لیاقت آرٹس کا کام بھی کرتے ہیں۔
’ماضی میں جب سینیما ہالوں میں فلمیں لگتی تھیں تو میں ان کے تشہیری بورڈز پینٹ کرتا تھا۔ میں اب بھی پنسل سے تصویر بنا سکتا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ پینٹنگ کی وجہ سے کی وجہ سے وہ کلرک بھرتی ہوئے تھے۔