صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں رواں ہفتے ایک خاتون افسر کو صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ضلعی فوڈ کنٹرولر (ڈی ایف سی) کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔
نوجوان خاتون افسر عظمیٰ شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سے قبل وہ اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر کے عہدے پر تعینات تھیں، جس میں مسلسل تین سال بہترین کارکردگی کا ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد انہیں موجودہ عہدے پر ترقی ملی ہے۔
’پہلی اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر کا شرف بھی مجھے حاصل ہوا۔ دراصل ہمیشہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ فوڈ کنٹرولر صرف مرد ہی ہو سکتا ہے۔ میں نے اس سوچ کو چیلنج کیا۔‘
عظمی شاہ کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی طور پر انگریزی ادب میں ایم فل کر کے گورنمنٹ کالج میں لیکچرار کی ملازمت اختیار کی تھی، تاہم ’ایڈمنسٹریٹیو جابز‘ میں دلچسپی نے انہیں چھ سال قبل پی سی ایس مقابلے کا امتحان دینے کی طرف راغب کیا۔
انہوں نے بتایا کہ بطور فوڈ کنٹرولر افسر انہیں اشیا کی قیمتوں میں اعتدال لانا ہوتا ہے، جس کے لیے باقاعدگی سے انسپکشن کی جاتی ہے، رپورٹ مرتب کرنی ہوتی ہے اور منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
اگرچہ عظمی شاہ نے مقابلے کا امتحان پاس کر لیا اور مستعدی سے بہترین کام بھی کر رہی ہیں لیکن دوسری جانب انہیں روایتی سوچ کا سامنا ہے۔
عظمیٰ شاہ کے مطابق خواتین کے حوالے سے معاشرہ زیادہ وسیع النظر نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں مردوں کی نسبت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جب میں اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر تھی تو دفتر کے قریب ایک مسجد کے امام نے جمعہ کے خطبے میں میرا نام لے کر کہا تھا کہ ایک خاتون مردوں کے اوپر حاکمیت نہیں کر سکتی۔ میرے ادارے میں بھی کئی مرد کہتے ہیں کہ بھلا ایک عورت ان سے برتر کیسے ہو سکتی ہے؟‘
ڈی ایف سی مانسہرہ نے بتایا کہ مسلسل تین سال بہترین کارکردگی کے ایوارڈز وصول کرنے کے باوجود اکثر مرد ان کے کام کا ریکارڈ نظرانداز کر کے انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی قابلیت کو مضحکہ خیز اور مشکوک بنانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔
’اکثر ادارے سے باہر مردوں کی جانب سے حوصلہ افزائی کے کافی پیغامات آتے ہیں اور کہتے ہیں ’میڈم آپ ہمارا فخر ہیں‘ جبکہ اپنے ادارے میں مردوں کی ایک کثیر تعداد حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ مجھے اسی سبب روزانہ اپنے آپ کو منوانا پڑتا ہے، مجھے مزید محنت کرنی پڑتی ہے۔‘
عظمیٰ شاہ نے مزید بتایا کہ وہ اس عہدے پر اس لیے آئی ہیں تاکہ اپنے بعد آنے والی خواتین کے لیے بھی راستہ ہموار کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ان سے قبل یہی سمجھا جاتا تھا کہ صرف مرد حضرات ہی ایسے عہدے سنبھال سکتے ہیں۔
’میں پہلی فوڈ کنٹرولر ہوں اور آخری نہیں بننا چاہتی۔ میرا ہار نہ ماننا ہم سب خواتین کی جیت ہے۔ کیوں کہ اگر میں ہار مان جاتی تو آج اس مقام پر نہ ہوتی۔ آپ اپنی موٹیویشن اور محنت جاری رکھیں، آپ کی کامیابی بذات خود حاسدوں اور برے لوگوں کے لیے ایک جواب ہے۔‘
عظمیٰ شاہ کے مطابق ان کے والد بھی ایک ایماندار افسر رہے ہیں اور انہی سے اثر لے کر ہر قدم پر ان کی رہنمائی حاصل کرتے ہوئے وہ اس مقام تک پہنچی ہیں۔