فیوژن ٹیک آرٹسٹ عائشہ مبارک علی نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’اوشی براؤنی‘ کے نام سے ایک برانڈ متعارف کروایا ہے جس کے ذریعے عائشہ ’فیجیٹل‘ کلوتھنگ، فیجیٹل فیشن اور فیجیٹل زیورات پر کام کر رہی ہیں۔
کراچی کی عائشہ مبارک علی ایک ویژول آرٹسٹ ہیں جو ملبوسات تیار کرتی ہیں۔
ملبوسات کی تیاری میں ان کا طریقہ تھوڑا جدید ہے۔ پہلے مطلوبہ ڈیزائن وہ کمپیوٹر پہ تیار کرتی ہیں اور اس کے بعد اگر گاہک پسند کرتے ہیں تو وہ ان ملبوسات کو باقاعدہ تیار کر کے ان کے حوالے کر دیتی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عائشہ نے بتایا: ’اوشی براؤنی جنوبی ایشیائی فیوژن ملبوسات کا برانڈ ہے جس کا مقصد فیوژن آرٹ کے ذریعے ثقافت کی دوبارہ تشریح کرتے ہوئے روایتی جمالیات کا استعمال ہے۔‘
ان کا کہنا ہے: ’فیجیٹل کلوتھنگ ایک نیا آئڈیا ہےجس کا مطلب یہ ہے کہ ہم پہلے ڈیجیٹل ایسیٹ (asset) پروڈیوس کرتے ہیں، اس کے بعد ہم اس کو فزیکل پروڈکشن پر لے کر جاتے ہیں، جوکہ ایک آن ڈیمانڈ تکنیک ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ اس کا پہلے ڈیجیٹل ایسیٹ بناتے ہیں جس میں اس کا ٹیکسچر، نٹنگ، رینڈر، کوالٹی، لائٹنگ آجاتی ہیں۔
’بالکل اسی طرح جس طرح کوئی فزیکل پراڈکٹ آپ بناتے ہیں اور بعد میں جب وہ آپ کے پاس تیار ہوجاتا ہے تو آپ اس کو شئیر کرتے ہیں بالکل کسی بھی دوسرے آرٹ ورک کی طرح۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جب وہ چیز بن جاتی ہے تو پھرآپ اس کو فزیکل پروڈکشن میں لے کر آتے ہیں۔ عائشہ کے مطابق اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب پہلے آپ اس کو ڈیجیٹلی پروڈیوس کرتے ہیں تو آپ وسائل کا ضیاع کم کرتے ہے۔ تو یہ پائیدار مشق یا پیداوار کے زیادہ محتاط طریقے ہیں اور اس وقت ان کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عائشہ کہتی ہیں کہ ہمارے اس کام کا مقصد یہ نہیں کہ ہم بہت زیادہ کپڑے بنائیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ اسے محدود مقدار میں رکھا جائے اور اس کو ایکسکلوزیو کسٹم ڈیزائننگ کی طرف لے کر جایا جائے۔
’مطلب یہ کہ جو بھی ہمارا گاہک ہو گا ہم اس کے حساب سے وہ چیز بنائیں گے۔ مستقبل میں ہمارے کپڑے بہت جدید ہوں گے، وہ تھوڑے روبوٹک بھی ہوں گے۔ ان میں جدید تکنیک بھی استعمال ہوئی ہو گی۔ ان سارے خیالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے ایک طریقہ کار تخلیق کیا ہے۔ ہم نے کچھ ڈیزائن مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے ہیں اور کچھ ڈیزائنز میں ہم نے ثقافت کو، سپیس کے آئیڈیاز کے ساتھ ملایا ہے۔‘
عائشہ کہتی ہیں کہ ان کے اس فیجیٹل آرٹ کو میٹاورس کے طور بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ’اس میں ڈیجیٹل پروڈکشن کا بہت زیادہ رول ہے۔ اگر میں میٹا ورس کی بات کروں تو ہم سب جانتے ہیں کہ آج کل میٹا ورس کی ہر جگہ بات ہو رہی ہے۔ اس میں ڈیجیٹل ٹوین یا ہماری دوسری پہچان ہے وہ بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ آج کل ڈیجیٹل کا دور ہے اور ہر کوئی ڈیجیٹل پہچان کی بات کر رہا ہے۔ یہاں ہماری جسمانی پہچان تھوڑی سی پیچے چلی جاتی ہے۔‘
’لیکن یہی تو سوال ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ اب ہم جو فیجیٹل کپڑے بنا رہے ہیں اس کا ڈیجیٹل پارٹ میٹاورس میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک تبادلے کا نظام (interoperable system) ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ جو ڈیزائزن ہم بنا رہے ہیں وہ فزیکل پروڈکشن میں تو جا ہی رہے ہیں لیکن وہ میٹا ورس میں بھی جا سکتے ہیں وہ آپ کا ڈیجیٹل ٹوین بھی پہن سکتا ہے۔ اور کل کو ہم کوئی اینیمیشن یا فلم بناتےہیں تو یہ اس میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔‘