’رقص مجھے اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے اور میں آزاد ہونے کے لیے رقص کرتی ہوں۔‘
یہ الفاظ کتھک ڈانسر اور کوریوگرافر نگہت چوہدری کے ہیں، جو دنیا بھر میں کتھک ڈانس آرٹسٹ کے طور پر پاکستان کی پہچان بنی ہوئی ہیں۔
نگہت نے مڈل سیکس یونیورسٹی لندن سے ڈانس ٹیکنیک پیڈاگوجی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور انہیں پاکستان میں ’پرائیڈ آف پرفارمنس‘ ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔
لاہور میں پیدا ہونے والی نگہت چوہدری ایک سال کی عمر میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ لندن منتقل ہوگئی تھیں، جہاں انہوں نے اپنا بچپن اور لڑکپن گزارا۔
لڑکپن میں ان کی ملاقات اس وقت کی مشہور ڈانس آرٹسٹ ناہید صدیقی سے ملاقات ہوئی، جن سے متاثر ہو کر انہوں نے رقص کی دنیا میں قدم رکھا۔
انہوں نے آغاز میں بیلے ڈانس سیکھا مگر مشرقی رنگ میں ڈھلے کتھک ڈانس نے ان کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
ان کا کہنا ہے کہ پرانے زمانے میں مرد کتھک کرتے اور عورتوں کا کردار نبھاتے تھے کیونکہ عورتوں کو اس کی اجازت نہیں تھی۔
بقول نگہت: ’مرد ہی کتھک کار ہوتے تھے یعنی کہانی بیان کرنے والے۔ آپ آرٹ کی کسی قسم کو صنفی امتیاز کے ساتھ وابستہ نہیں کر سکتے کیونکہ آرٹ تو سب کے لیے ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کتھک صرف ان کا شوق نہیں بلکہ جنون ہے اور اس کی ان کی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔
’کتھک نے نہ صرف مجھے سیراب کیا بلکہ میرے اندر گہرائی بھی کتھک کی وجہ سے آئی۔ اس نے نہ صرف مجھے دنیا اور لوگوں کو پہچاننے کا موقع دیا بلکہ میری پہچان بھِی بنا۔ اس نے مجھے یکسو کیا اور یکسو ہونا روحانیت کا اہم جزو ہے۔ یکسو ہوکر آپ ہر چیز سے کٹ جاتے ہیں۔ ہر چیز سےآزاد ہو جاتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم نے کتھک کو اس طرح نہیں اپنایا جس طرح سے اپنایا جانا چاہیے تھا۔ کتھک ایک تاثر ہے، ایک آرٹ فارم ہے اور ایک آرٹسٹ بناتا ہے جبکہ ہم نے اس کو مجرے سے وابستہ کر دیا۔‘
ان کے خیال میں اب زیادہ لوگ اس میں دلچسپی لیتے ہیں، اسے قبول کر رہے ہیں اور لوگوں میں یہ شعور سوشل میڈیا بالخصوص یوٹیوب کی وجہ سے آ رہا ہے۔ ’ہمیں سوشل میڈیا کا شکر گزار ہونا چاہیے، جس نے کلاسیکل ڈانس کو ایک بار پھر متعارف کروایا۔‘
انہوں نے کہا: ’میں چاہتی ہوں کہ میرے پاس جتنی بھی لڑکیاں آئیں وہ اپنے اندر نسوانیت کو مزید بڑھائیں۔ آج کل کی عورت بہت خود مختار ہو گئی ہے اور وہ کسی حد تک مردوں والی زندگی گزارنے لگی ہے۔‘
نگہت چوہدری نے بتایا کہ انہوں نے لندن میں مڈل سکس یونیورسٹی ڈانس پیڈاگوجی میں ماسٹرز کیا۔ ’میں نے باڈی پولیٹکس کے بارے میں کام کیا، میں نے ڈانس کی مختلف فارمز پر ریسرچ کی، بالخصوص ڈانس اور روحانیت کے تعلق، ڈانس کی تکنیک، ڈانس کی گردان پر تحقیق کی۔ میرے ریسرچ تھیسز کا نام ’ڈانسنگ دا فیمیل باڈی ان پاکستانی سوسائٹی‘ ہے۔
’مجھے معلوم کرنا تھا کہ مردوں کے معاشرے میں فیمیل باڈی کی کیا حیثیت ہے، کیونکہ رقص فیمیل باڈی کی توسیع ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول نگہت: ’ہمارے استعماری نظام میں عورت کو دبانے کے بہت سارے جواز موجود ہیں۔
’پہلے برطانیہ نے یہاں ڈانس کو بہت دبایا۔ یہ بھِی میں نے اپنے تھسیز میں لکھا کہ ہندوستان کے لوگوں نے نہیں بلکہ برطانیہ کے لوگوں نے اس وقت اس ڈانس کو نظر انداز کیا کیونکہ ان کو اس کی باریکی سمجھ نہیں آ رہی تھِی۔ ان کو تو بس وقتی تفریح کا ذریعہ چاہیے تھا، جس کے لیے انہوں نے ڈانس کو استعمال کیا۔ مجرے کا تصور بھِی یہیں سے نکلا۔‘
نگہت چوہدری نے بتایا: ’انہوں نے نہ صرف آرٹسٹ لوگوں کے فن کو دبایا بلکہ ان کو بدنام کیا۔ انہیں معاشرتی اور مالی طور پر پریشان اور تنگ کیا، تو آرٹسٹ خواتین خاص طور پر اپنے آرٹ کو چھوڑ کر دوسرے کام کرنے پر مجبورہو گئیں۔ بہت سے غیراخلاقی کاموں کے لیے برطانیہ کے فوجیوں نے انہیں مجبور کیا۔‘
ڈانس پیڈاگوجی میں لندن سے ڈگری کرنے کے علاوہ انہوں نے انڈیا کی جین یونیورسٹی سے منسلک ناٹیا انسٹی ٹیوٹ آف کتھک اینڈ کوریوگرافی سے حال ہی میں کوریوگرافی ڈپلومہ کیا۔
’وہاں میں نے آدھی گواہی پر ریسرچ تھسیز کیا کہ عورت کو آدھی گواہی ہر چیز میں کیوں کہا جاتا ہے جبکہ ہر جگہ ایسا نہیں۔ آدھی گواہی صرف مالی لین دین میں ہے اور یہی قرآن میں لکھا ہے۔ باقی ہر چیز میں عورت کی گواہی پوری ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ بہت جلد یوٹیوب چینل شروع کر رہی ہیں، جہاں اردو میں ڈانس کلاسز ہوں گی۔