پاکستان اور چین کے درمیان طے پانے والے اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت پشاور سے کراچی تک ریلوے مین لائن (ایم ایل ون) بھی تعمیر ہونی تھی، تاہم یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔
اس منصوبے پر کام سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں شروع ہونا تھا مگر یہ منصوبہ سست روی کا شکار رہا۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید نے بھی اس پر کام جاری رکھنے کے لیے قرضوں کی منظوری یقینی بنانے کی کوشش کی تھی۔
پلاننگ کمیشن کی جانب سے بھی اس پر کام کرنے کو ترجیح دی گئی مگر یہ منصوبہ شروع نہ ہوسکا۔
پھر اعظم سواتی کو وزیر ریلوے بنایا گیا تو سی پیک ایم ایل ون کے سابق انچارج بشارت وحید کے بقول انہوں نے نہ صرف اس منصوبے کو ہی بند کر دیا بلکہ سٹاف کو بھی ہٹا دیا گیا۔
گذشتہ چھ سال سے یہ منصوبہ شروع نہ ہونے کے باعث چین نے متبادل راستوں سے اپنا مطلوبہ ٹارگٹ حاصل کر لیا ہے۔
اس منصوبے کی لاگت بھی چھ ارب ڈالر سے بڑھ کر دس ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، لہذا امکان ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف دورہ چین کے موقعے پر اس منصوبے کی بحالی کی درخواست کریں گے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین اس منصوبے کی بحالی اور پاکستان کو فنڈز کی فراہمی کے لیے رضامند ہو گا یا نہیں؟
اس منصوبے پر عمل درآمد ہوتا بھی ہے تو ریلوے جدید نظام پر ایک حد تک منتقل ہوسکے گا۔ ریلوے حکام کے مطابق ٹرین کی رفتار دیگر دنیا کے مقابلے میں کم ہی رہے گی کیونکہ سپیڈ 200 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ کرنے کے لیے پورا نظام تبدیل کرنا ہوگا۔
My discussions with Chinese leadership will focus on revitalization of CPEC among many other things. 2nd phase of CPEC promises to usher in a new era of socio-economic progress that will uplift quality of our people's lives. There is a lot to learn from Chinese economic miracle. https://t.co/A6knRLzN6l
— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) November 1, 2022
منصوبے کی پاکستان کے لیے اہمیت
سی پیک ایم ایل ون کے سابق انچارج بشارت وحید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے تحت ایم ایل ون منصوبہ کئی سال پہلے طے پایا تھا، اس پر نواز شریف کے دور میں تیزی سے عمل ہوا اور موٹر وے تعمیر ہوئی جبکہ دوسرے مرحلے میں سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے منصوبے کا ابتدائی تخمینہ یعنی پی سی ون تیار کروایا تھا۔
بشارت وحید کے مطابق: ’ایم ایل ون منصوبہ اپ گریڈ ہونا تھا، لیکن یہ منصوبہ بدقسمتی سے پی ٹی آئی حکومت میں سست روی کا شکار ہوا اور بعد میں اعظم سواتی نے اسے بند ہی کروا دیا، سٹاف بھی ہٹا دیا گیا اور دفاتر بھی بند کر دیے گئے۔‘
دنیا بھر میں ریلوے جدید نظام کے تحت چل رہا ہے کیونکہ یہ مال برداری کا سب سے سستا اور موثر ذریعہ ہوتا ہے۔ چین بھی سی پیک منصوبے کے تحت حویلیاں سے چین کو ریلوے کے ذریعے جوڑنا چاہتا تھا تاکہ مال برداری کے لیے ٹرین استعمال کی جائے۔
بقول بشارت وحید: ’یہ گیم چینجر پلان ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف ریلوے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا تھا بلکہ ملکی معیشت میں بھی اس سے نمایاں بہتری آنی تھی۔ اب جو مال گاڑیوں سے چار فیصد مال برداری ہوتی ہے وہ 14، 15 فیصد پر آسکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چھ سال تاخیر کے باعث چین کی دلچسپی اس وجہ سے کم ہوگئی کہ انہوں نے بذریعہ ٹرین دیگر ممالک تک رسائی متبادل ممالک سے بنا لی ہے۔ تاہم اب وزیر اعظم ریلوے حکام کو ساتھ دورہ چین پر لے جا رہے ہیں اور ان کی پہلی ترجیح ہوگی کہ یہ منصوبہ دوبارہ بحال ہو اور چین پاکستان کی مالی معاونت کرے۔‘
ٹرین کو جدید ٹریک پر چڑھانا مشکل کیوں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
براڈ گیج (پٹری) کی چوڑائی پانچ فٹ، چھ انچ ہونے کے باعث ٹرین کی زیادہ سے زیادہ رفتار 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے جبکہ سٹینڈرڈ گیج پٹری کی چوڑائی چار فٹ ہوتی ہے، جس پر ٹرین 250 سے 350 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہے۔
پاکستان ریلوے نے مالی بحران کے باعث گذشتہ دور حکومت میں ہی چین اور پاکستان کے درمیان سی پیک کے تحت کراچی سے پشاور تک ٹریک کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ادارے کی جانب سے پلاننگ کمیشن میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق ریلوے کا پورا نظام براڈ گیج ٹریک پر مشتمل ہے جو 7386 کلومیٹر ہے۔
اگر کراچی سے پشاور تک (مین لائن ون) کو سٹینڈرڈ گیج پر منتقل کیا گیا تو ٹرینوں کی رفتار تو عالمی سطح کے ریلویز کے مطابق ہو جائے گی لیکن باقی سب ٹریکس اور گاڑیاں ناکارہ ہو جائیں گی جبکہ لنک لائنز پر گاڑیاں نہیں چلائی جا سکیں گی۔
اسی طرح براڈ گیج کی اپ گریڈیشن پر 50 لاکھ ڈالر فی کلومیٹر خرچ ہوگا جبکہ سٹینڈرڈ گیج پر تین کروڑ ڈالر فی کلومیٹر خرچ آئے گا اور پاکستان ریلوے یہ مالی خرچ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا۔
رپورٹ کے مطابق سٹینڈرڈ گیج پر منتقل ہونے کے لیے علیحدہ ٹریک بنایا جا سکتا ہے جسے شہروں سے لنک کرنا پڑے گا۔
پاکستانی پلاننگ کمیشن نے براڈ گیج کو ہی اپ گریڈ کرنے پر اتفاق کیا ہے جبکہ سگنل سسٹم اور کمیونیکیشن سسٹم کو بھی جدید بنایا جائے گا۔