’میرے دوست کے والد کے پاس پرانے ماڈل کا ویسپا سکوٹر تھا، اسے دیکھ کر میرا بھی شوق بڑھ گیا کہ کیوں نہ اسی طرح کا سکوٹر خرید کر اسے دوبارہ تیار کروں اور یوں ایک خریدا، پھر دوسرا اور اب چار ویسپا لے چکا ہوں۔‘
یہ کہنا تھا پشاور سے تعلق رکھنے والے نوجوان حاشر سلیم کا جو ویسپا سکوٹر رکھنے کے شوقین ہیں۔
حاشر نے اپنے چاروں سکوٹر پشاور میں منعقد ہونے والی ایک نمائش میں رکھے ہیں تاکہ لوگ انہیں دیکھ سکیں۔
میلے میں آئے ہوئے لوگ ویسپا کو دیکھتے ہیں اور حاشر دیکھنے والوں کو آگاہ بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے ویسپا میں کیا کیا تبدیلی کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’عام تاثر یہ ہے کہ ویسپا کو بڑی عمر کے افراد استعمال کرتے ہیں اور آپ لوگوں نے سڑکوں پر بھی بڑی عمر کے افراد کو ہی ویسپا چلاتے ہوئے دیکھا ہوگا، لیکن میں نوجوان ہوں لیکن ویسپا کا شوق رکھتا ہوں۔‘
حاشر کا ایک سکوٹر برطانیہ کا بنا ہوا ہے جبکہ باقی تینوں ویسپا اٹلی کے ہیں، جو 150 سی سی کے ہیں۔
حاشر کے مطابق ویسپا کو چلانا باقی موٹر سائیکلوں سے بہت مختلف ہے۔
انہوں نے بتایا: ’ویسپا میں گیئر کا نظام، تیل ڈالنے کا نظام اور باقی فکنشنز بھی جدید سائیکل سے مختلف ہیں۔ ویسپا میں اہم بات یہ ہے کہ یہ چلانے میں جتنی آرام دہ ہے، یہ جدید موٹر سائکل میں بالکل بھی نہیں ہے۔ میں اسی سکوٹر پر مری اور نتھیاگلی تک گیا ہوں لیکن کبھی بھی مجھے اس نے مایوس نہیں کیا ہے۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ ویسپا کی قیمت آج کل کیا ہے اور اس کو تیار کرنے پر کتنا خرچہ آتا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ’اگر جینوئن حالت میں ویسپا لینا ہے تو مارکیٹ میں آپ کو 15 ہزار سے 40 ہزار تک مل سکتا ہے تاہم اس کو ری سٹور کرنا بہت مشکل ہے۔‘
ویسپا سکوٹر پاکستان میں کب متعارف ہوا؟
اٹلی کی کمپنی پیاگانو کے بنائے گئے ویسپا (جو اٹلی میں واسپ یا بھڑ کو کہلاتا ہے) کی کہانی روم سے شروع ہوتی ہے، جب 1946 میں پہلی مرتبہ 98 سی سی کی ویسپا سکوٹر کو روم کے گالف کلب میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔
ویسپا پاکستان نامی ویب سائٹ کے مطابق پیاگانو جنگ عظیم کے وقت جنگی طیارے بناتی تھی لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جب اٹلی کی معشیت خراب تھی، تو اسی کمپنی نے معاشرے کے غریب افراد کے لیے دو پہیوں والی گاڑی بنانے کا فیصلہ کیا اور یوں ویسپا مارکیٹ میں آگیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابتدا میں کمپنی نے 98 سی سی کا ویسپا بنانا شروع کیا اور 1949میں پہلی مرتبہ کمپنی نے 125 سی سی کا سکوٹر بنایا جو عوام میں مقبول ہوا۔ کمپنی کے مطابق یہ ریس کے شوقین افراد کے لیے بنایا گیا تھا۔
ویسپا کا سفر جاری تھا جب پہلی مرتبہ 1960 کی دہائی میں ویسپا نے پاکستان میں قدم رکھا اور اس کو ایک ’سٹیٹس سمبل‘ جانا جاتا تھا کیونکہ لوگ اس کو برآمد کرتے تھے۔
دس سال بعد ویسپا کو فرانس کی وزارت دفاع سے آرڈر مل گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وزارت کے لیے ملٹری استعمال کی غرض سے ویسپا بنائے جائیں اور یوں ایک خاص قسم کا ویسپا بنایا گیا جس میں ایک بندوق کو بھی فٹ کیا گیا تھا۔
پاکستان میں سڑکوں پر زیادہ تر ویسپا 1960 اور 1970 ماڈل کے ملیں گے، جو زیادہ تر 150 سی سی ہے۔
کمپنی نے نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیے 50 سی سی انجن والی ویسپا 1963 میں متعارف کی، جو نوجوانوں میں بہت مقبول ہوگئی کیونکہ اس کو چلانا اور مینٹین کرنا بہت آسان تھا۔
ویسپا کا جدید ماڈل 2018 میں متعارف کروایا گیا، جو پاکستان میں تین لاکھ روپے تک دستیاب ہے۔ یہ 50 اور 125 سی سی ویرینٹس میں دستیاب ہے۔