سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر نے جمعے کو 7500 افراد پر مشتمل عملے میں سے نصف کو ملازمت سے برطرف کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ادارے نے ٹوئٹر کی ایک دستاویز دیکھی جس میں بتایا گیا کہ ’تقریباً 50 فیصد‘ ملازمین متاثر ہوئے ہیں اور انہیں فوری طور پر کمپنی کے کمپیوٹرز اور ای میل تک رسائی نہیں دی جائے گی۔
سلیکون ویلی کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک کو الوداع کہنے والے کارکنوں نے اپنی مایوسی یا غیر یقینی کے اظہار کے لیے ٹوئٹر کا سہارا لیا۔
امریکہ اور کینیڈا کے لیے ٹوئٹر کی پبلک پالیسی کی ڈائریکٹر مشیل آسٹن نے لکھا: ’صبح جاگی تو خبر ملی کہ میرا ٹوئٹر کے ساتھ کام کا وقت پورا ہو گیا۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘
Woke up to the news that my time working at Twitter has come to an end.
— Michele Austin (@_MicheleAustin) November 4, 2022
I am heartbroken. I am in denial.
It’s been the best, craziest, most rewarding ride of my career. I have loved every single minute of it.
A short thread, if you will indulge me:#LoveWhereYouWork
ملازمین کو برطرفیوں کی اطلاع دینے والی کمپنی کی ابتدائی ای میل کے 24 گھنٹے بعد نئے مالک ایلون مسک نے برطرفیوں کے موضوع پر بات کی۔
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا: ’کمپنی کے ملازمین کی تعداد میں کمی کے حوالے سے، بد قسمتی سے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کیوں کہ کپمنی کو یومیہ 40 لاکھ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ برطرف ہونے والے ہر ملازم کو تین ماہ کی تنخواہ دی جا رہی ہے جو قانونی تقاضے سے 50 فیصد زیادہ ہے۔‘
Regarding Twitter’s reduction in force, unfortunately there is no choice when the company is losing over $4M/day.
— Elon Musk (@elonmusk) November 4, 2022
Everyone exited was offered 3 months of severance, which is 50% more than legally required.
ملازمین کی چھانٹی سے پہلے ٹوئٹر نے دنیا بھر میں اپنے دفاتر میں رسائی بند کر دی تھی اور ملازمین سے کہا گیا تھا کہ وہ گھر رہ کر بذریعہ ای میل اپنی قسمت سے متعلق خبر کا انتظار کریں۔
ٹوئٹر کے برطرف ہونے والے ایک کارکن نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’یہ لوگوں کے ساتھ کیا جانے والا غیر انسانی سلوک ہے۔ یہ کرائے کے سپاہی کی کوشش کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ وہ ہر قیمت پر پیسہ بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ملازمین کی برطرفی ان کوششوں کا حصہ ہے جو ایلون مسک ٹوئٹر کی خریداری کے 44 ارب ڈالر کے سودے کے لیے ادائیگی کے لیے کر رہے ہیں۔ ٹوئٹر خریدنے کے لیے انہوں نے اربوں ڈالر کا قرضہ لیا اور اپنی الیکٹرک کار ساز کمپنی ٹیسلا میں ساڑھے 15 ارب ڈالر کے شیئرز فروخت کر دیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمپنی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مسک کی ٹیم باقی ماندہ ملازمین کے لیے حالات کو مشکل بنا رہی ہے۔ ٹیسلا کے ڈیولپرز کو ٹوئٹر میں لایا جا رہا ہے جو کمپنی کے اندر ’ٹویپ‘ کے نام سے پکارے جانے والے ملازمین کے کام کی نگرانی کریں گے۔
کہا جاتا ہے کہ ٹیسلا اور سپیس ایکس کے سربراہ ایلون مسک کو اس ڈیل پر سود کی مد میں سالانہ ایک ارب ڈالر کا سود ادا کرنا ہے۔
ٹوئٹر کی بڑی خریداری کے بعد مسک اس سے پیسہ کمانے کے لیے مختلف طریقے اپنانے میں مصروف ہیں۔ اس میں مصدقہ اکاؤنٹس کے صارفین سے ماہانہ آٹھ ڈالر فیس کی وصولی بھی شامل ہے۔
اس اقدام سے اشتہارات دینے والوں کے ممکنہ نقصان پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ ٹوئٹر کی آمدن کا بڑا ذریعہ اشتہارات ہیں۔ دنیا کے بہت سے اعلیٰ برانڈز نے اپنے اشتہارات روک رکھے ہیں کیوں کہ وہ اشتہار کے مواد پر قابو پانے کے معاملے میں مسک کی ناپسندیدگی کی وجہ سے خوف کا شکار ہیں۔
متلون مزاج کاروباری شخصیت ایلون مسک نے جمعے کو ٹوئٹر پرآمدن میں بڑی کمی کی شکایت کی تھی۔
انہوں نے اس صورت حال کا الزام ایکٹیوسٹ گروپ کو دیا جو اشتہار دینے والی کمپنیوں پر دباؤ ڈالنے میں مصروف ہیں۔ ایلون مسک نے مزید کہا: ’ایکٹیوسٹس کو رام کرنے لیے ہم نے سب کچھ کیا۔ صورت حال بہت خراب ہے۔ وہ امریکہ میں آزادی اظہار کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘