انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بھی برصغیر کے دوسرے علاقوں کی طرح کرکٹ کا جنون پایا جاتا ہے۔
آپ کشمیر میں جہاں بھی جائیں نوجوان گلی، محلوں اور میدانوں میں کرکٹ کھیلتے نظر آئیں گے اور تماشائی داد دیتے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ کرکٹ سے اتنے لگاؤ کے باوجود انڈیا کی قومی ٹیم میں کشمیر سے کھلاڑی نظر نہیں آتے؟
اس سوال کے جواب میں سری نگر کے ٹی آر سی گراؤنڈ میں پریکٹس کرنے والے سید علی نے بتایا کہ عالمی کرکٹ کھیلنے کے لیے جو سہولیات میسر ہونی چاہییں، وہ یہاں دستیاب نہیں۔
1999 سے کرکٹ سے وابستہ اور قومی سطح پر نام کمانے والے بانڈی پورہ کے کرکٹر سلیم جہانگیر کہتے ہیں کہ یہاں کے کھلاڑی ہونہار ہیں لیکن ’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کشمیر کی مرکزی کرکٹ ایسوسی ایشن میں ناانصافی ہوتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہاں کے کھلاڑیوں میں محنت اور لگن میں کوئی کمی نہیں لیکن ان کھلاڑیوں کا ماننا ہے کہ بنیادی ڈھانچہ پرانے زمانے کا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم 10 سال میں ایک بین الاقوامی کھلاڑی پیدا کر پاتے ہیں۔ ایک اور بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے کھلاڑی زیادہ تر میٹ پر مشقیں کرتے ہیں، اس لیے ٹرف پر چونک جاتے ہیں۔‘
ایسا نہیں کہ کشمیر سے کبھی کوئی کھلاڑی انڈین ٹیم کا حصہ نہیں بنا۔ 2013 میں پرویز رسول پہلے کشمیری کرکٹر تھے جو انڈین ٹیم میں شامل ہوئے۔
حال ہی میں جموں کے عمران ملک انڈین ٹیم سے منسلک ہوئے۔ مشہور کھلاڑی سریش رائنا کا تعلق بھی کشمیر سے ہے، لیکن ان کی پرورش کشمیر میں نہیں ہوئی۔
میلبرن کرکٹ کونسل (ایم سی سی) کی سالانہ چھپنے ہونے والی کتاب ’وزڈن کرکٹر المناک‘ میں دنیا بھر سے کرکٹ کی بہترین تصاویر شائع ہوتی ہیں۔
2017 کے ایڈیشن میں کشمیری فوٹوگرافر ثاقب مجید کی کرکٹ سے متعلق ایک خوبصورت تصویر بھی اس میں شامل ہوئی، جو سری نگر کے نشاط باغ میں خزاں کے موسم میں لی گئی تھی۔
انڈیا کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں 1983 اور 1986 میں ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے خلاف دو ون ڈے میچ کھیل چکا ہے۔