ایران نے پیر کو عراق میں حزب اختلاف کے کرد گروپوں پر میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں، جن کے نتیجے میں عراقی حکام کے مطابق کم از کم ایک ہلاکت ہوئی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تہران ان گروپوں پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ ایران میں بدامنی میں ملوث ہیں۔
رواں برس ستمبر میں 22 سالہ مہسا امینی کی ایران کی اخلاقی پولیس کے زیر حراست ہلاکت کے بعد ملک میں تقریباً دو ماہ سے احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پولیس نے مہسا کو لباس کے ضابطے کی مبینہ خلاف ورزی پر گرفتار کیا تھا۔
ایران شمالی عراق میں قائم کرد ایرانی اپوزیشن گروپوں پر الزام لگاتا ہے کہ وہ ایران میں ’فسادات‘ کو ہوا دینے میں ملوث ہیں۔
قبل ازیں ان گروپوں کو ستمبر میں حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا، جن میں عراق کے خود مختار کردستان علاقے میں 12 سے زیادہ زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
عراقی کردستان میں کوئی سنجق شہر کے میئر طارق الحیدری نے اے ایف پی کو بتایا کہ پیر کو کیے جانے والے حملوں میں ’پانچ ایرانی میزائلوں نے ایک عمارت کو ہدف بنایا جو کردستان ڈیموکریٹک پارٹی آف ایران کے زیر استعمال ہے۔‘
خود مختار کردستان کی وزارت صحت نے کہا کہ حملے میں ’ایک شخص ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے، جو ایرانی کرد ہیں۔‘
کردستان کے پہاڑی علاقے سے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایرانی حملے کے بعد جائے وقوعہ سے دھواں اٹھ رہا ہے۔
کرد قوم پرست گروپ کوملہ کے رہنما عطا سیقزی کا کہنا تھا کہ ڈرون سے کیے گئے ایک اور حملے میں زرگوئز کے علاقے میں ایرانی کمیونسٹ پارٹی اور کوملہ کو نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کرد گروپوں کو حملوں کے حوالے سے خبردار کر دیا گیا تھا اور گروپوں نے اپنے مقامات خالی کر دیے تھے۔
بعد ازاں عراقی وزارت خارجہ نے ایرانی حملوں کی ’شدید مذمت‘ کرتے ہوئے کہا کہ عراقی خود مختاری کی خلاف ورزی کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب ایران میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل محمد تقی اوسنلو نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا: ’ہم نے سرحد کے قریب اور سرحد سے 80 کلو میٹر دور اہداف کو‘ میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا وہ ’دہشت گرد تھے اور گذشتہ چند ماہ سے فسادات میں فعال تھے۔‘
سرکاری ٹیلی ویژن پر بات کرتے ہوئے اوسنلو نے خبردار کیا کہ اگر عراقی کرد حکام نے ایرانی کرد گروپوں کو نہ نکالا تو مزید حملے کیے جائیں گے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم پہلے ہی درخواست کر چکے ہیں کہ مقامی حکومت مداخلت کرے لیکن اس نے کچھ نہیں کیا۔‘
ایرانی وزارت خارجہ کا استدلال ہے کہ سرحد پار تازہ فوجی کارروائی ایرانی علاقے میں سلامتی کے تحفظ کے لیے ضروری تھی۔
ایران میں اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ اس نے ایران کے تازہ میزائل اور ڈرون حملوں کی مذمت کی ہے کیوں کہ ان سے عراق کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہوئی۔
دوسری جانب امریکہ نے اس کارروائی کو ’عراق کی خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ ’ہم ایران، جس نے عراق کی خود مختاری کی کئی بار اور کھلی خلاف ورزی کی، پر زور دیتے ہیں کہ وہ حملے بند کرے اور عراق کی علاقائی سلامتی کے لیے مزید خطرات پیدا کرنے سے گریز کرے۔‘