روس نے ماسکو میں 16 نومبر کو افغانستان کے حالات پر تبادلہ خیال کے لیے علاقائی ممالک کا ایک مشاورتی اجلاس منعقد کیا، جس میں طالبان کے حکومتی نمائندوں کو مدعو نہیں کیا گیا۔
اس سے قبل گذشتہ سال اکتوبر میں ہونے والے مذاکرات میں طالبان حکومت کے اعلیٰ سطح کے وفد نے نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی کی قیادت میں شرکت کی تھی۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا کے مطابق اجلاس کے ایجنڈے پر افغانستان کی فوجی، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور انسانی صورت حال پر بحث، علاقائی سکیورٹی اور استحکام اور بین الافغان قومی مصالحت کو فروغ دینا جیسے نکات شامل ہیں۔
اگرچہ روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے کہا ہے کہ طالبان کو ’ماسکو فارمیٹ کنسلٹیشنز‘ نامی فورم کے اجلاس سے متعلق آگاہ کیا جائے گا، لیکن انہوں نے طالبان کو نہ بلانے سے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔
تاہم انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کے ساتھ ماسکو میں آٹھ نومبر کو مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں روسی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ افغانستان میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔ لاوروف کا مزید کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ کابل میں حکمرانوں نے اپنے لوگوں کے ساتھ جو وعدے کیے تھے وہ ان کو پورا نہیں کر رہے ہیں۔‘
طالبان وزارت خارجہ نے اپنے بغیر ماسکو کے اجلاس کو نامکمل قرار دیا ہے۔ روس کی جانب سے 2017 میں افغانستان سے متعلق شروع ہونے والے مشاورتی فورم میں اکثر ممالک طالبان کے ساتھ بین الاقوامی روابط کے حامی ہیں تاکہ افغانستان میں عدم استحکام پیدا نہ ہو۔
تاہم طالبان حکومت نے جمعرات کو ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں ماسکو فارمیٹ کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔
بیان میں لکھا ہے کہ افغان ’وزارتِ خارجہ کو یقین ہے کہ افغانستان کی سلامتی اور استحکام خطے کی سلامتی اور اور استحکام آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے اسلامی امارات یہ ذمہ دار حکومت کی حیثیت سے علاقائی ملکوں سے تہیہ کرتی ہے کہ وہ کسی فرد یا گروہ کو علاقے کے استحکام کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اور اس نے مخالف تنظیموں کے خلاف منشیات اور سمگلنگ روکنے کے اقدامات کیے ہیں۔‘
روس کی ناراضگی؟
طالبان کو اس اہم کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہ دینا کسی حد تک روس اور اس فورم کے دیگر ممالک کی ناراضگی ظاہر کرتی ہے۔
طالبان کو مدعو نہ کرنے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اسی فورم کے گذشتہ سال ہونے والے اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں طالبان حکمرانوں سے جو مطالبات کیے گئے تھے، ان میں کسی ایک مطالبے کو تاحال تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
ماسکو مذاکرات میں طالبان کو حکومت میں دوسروں کو جگہ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ مطالبہ صرف ماسکو فورم کا نہیں بلکہ پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک، علاقائی اور بین الاقوامی فورمز پر طالبان سے یہی مطالبہ کرتے رہے ہیں، لیکن طالبان اپنے موجودہ نظام کو وسیع البنیاد قرار دیتے ہیں۔
طالبان کے امیر شیخ ہبت اللہ نے کابل میں ہونے والی علما کانفرنس میں طالبان کے علاوہ دوسروں کے لیے اپنے نظام میں جگہ دینے کو خارج از امکان قرار دیا تھا۔
اس کا مطلب ہے کہ یہ باب بند ہوگیا ہے کیوں کہ امیر کا بیان ایک حتمی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ماسکو مشاورتی فورم کے گذشتہ اجلاس کے اعلامیے میں طالبان سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’حکومت کو تسلیم کروانے کے لیے، طالبان ریاستی انتظام میں بہتری لائیں اور ایک حقیقی نمائندہ حکومت کی تشکیل کریں جس میں ملک کے تمام سیاسی اور علاقائی گروپ شامل ہوں۔ یہ افغانستان میں قومی مصالحتی عمل کی تکمیل کے لیے ایک بنیادی شرط ہو گی۔‘
روس اور دیگر ممالک کی طالبان سے مایوسی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ غیر ملکی مسلح گروپوں کے خلاف اس طرح اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس طرح انہیں توقع تھی۔
دیگر بین الاقوامی فورمز کی طرح ماسکو مشاورتی فورم نے غیر ملکی شدت پسند گروپوں کی افغانستان میں موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی سرگرمیاں پڑوسیوں کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔
القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی 31 جولائی کو امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت نے طالبان کے لیے ایک مشکل کھڑی کی ہے۔ اگرچہ طالبان نے کابل کے ایک مکان میں القاعدہ کے سربراہ کی موجودگی سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا لیکن دنیا طالبان کے اس موقف سے متفق نہیں ہے۔
اس فورم میں اکثریت افغانستان کے پڑوسی ممالک کی ہے، جو افغانستان کے حالات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ اس فورم کا بنیادی مقصد افغانستان میں مسائل کے حل کے لیے ایک علاقائی نقطہ نظر اپنانا ہے۔
اگرچہ طالبان نے اپنی شرکت کے بغیر ماسکو مشاورتی فورم کے اجلاس کو نامکمل قرار دیا ہے، لیکن انہیں بھی سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ علاقائی ممالک کے ایک اہم فورم میں انہیں دعوت نہیں دی گئی جس میں اکثر ممالک کے طالبان حکومت کے ساتھ اچھے مراسم اور رابطے موجود ہیں۔
روس، چین اور پاکستان بین الاقوامی فورمز پر طالبان پر پابندیوں کی مخالفت اور افغانستان کے منجمد فنڈز کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تینوں ممالک نے 12 نومبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا، جس میں طالبان حکومت بننے کے بعد افغانستان کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
روس کی جانب سے طالبان کو دعوت نہ دینے سے متعلق فیصلے پرطالبان وزارت خارجہ کے ترجمان عبد القہار بلخی نے چھ نومبر کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ان کی حکومت کو دعوت نہ دینے سے رابطوں پر منفی تاثرات مرتب ہوں گے۔
تاہم اس معاملے پر طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا بیان قدرے نرم تھا، جنہوں نے کہا کہ افغانستان میں حالات کی بہتری کے لیے ہونے والی کانفرنس قابل ستائش ہے اور ماضی میں ہونے والے اجلاسوں میں طالبان کی شرکت سے افغانستان کے حالات کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
مجاہد کا مزید کہنا تھا کہ ’افغانستان اور ہماری حکومت کی موجودگی کے بغیر بھی ہم ان تمام اجلاسوں کا خیر مقدم اور حمایت کرتے ہیں کیونکہ ہمیں علاقائی سطح پر عمومی تعاون کی ضرورت ہے۔‘
ماسکو مشاورتی فورم کا اغاز کب ہوا تھا؟
ویسے تو پاکستان، چین اور روس نے افغانستان پر 2016 سے مشاورتی اجلاسوں کا آغاز کیا تھا تاکہ ایک سیاسی حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں لیکن بعدازاں اس سہ فریقی گروپ میں توسیع کرکے دیگر ممالک کو شامل کیا گیا اور 2017 میں اس فورم کا باقاعدہ اجلاس ہوا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روس وہ واحد ملک ہے جس نے طالبان سیاسی دفتر کے عہدیداروں کو ماسکو میں 2018 میں اہم اجلاس میں دعوت دی تھی، جو افغانستان سے باہر دنیا کے ساتھ ان کا پہلا رابطہ تھا۔
اسی اجلاس میں طالبان سیاسی نمائندوں کا اس وقت افغان مصالحتی کونسل کے حاجی دین محمد کے ساتھ رابطہ بھی ہوا تھا۔ اسی سال امریکہ اور طالبان کے درمیان غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے لیے قطر میں مذاکرات کا اغاز بھی ہوا تھا۔
ان مذاکرات کے نتیجے میں 29 فروری 2020 کو ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں امریکی اور نیٹو افواج تو افغانستان سے چلی گئی تھیں لیکن بین الاافغان مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے اور ایک وسیع البنیاد حکومت بھی نہ بن سکی۔
اب دنیا طالبان سے وسیع البنیاد حکومت کا مطالبہ کررہی ہے لیکن طالبان اس مطالبے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔
ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے کی تھی۔ اسی اجلاس میں ایران، بھارت، تاجکستان، ازبکستان، قازقستان، ترکمنستان اور ازبکستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔
او آئی سی کا کابل میں دفتر
اگرچہ روس نے طالبان کو نہ بلا کر انہیں مایوس تو کیا ہے لیکن اسی ہفتے اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کا کابل میں دفتر کھولنا کسی حد تک طالبان حکمرانوں کے لیے خوشی کا باعث ہوگا۔
طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دفتر کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی کا دفتر ان کی حکومت اور اسلامی ممالک کے درمیان رابطے اور تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اہم اقدام ہے۔
ماسکو اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی نمائندہ خصوصی محمد صادق نے مشاورتی اجلاس کو بتایا کہ ماسکو مذاکراتی فورم نے افغان حکومت کے ساتھ عملی رابطوں کے لیے اصول مرتب کیے تھے۔
ان میں وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کے لیے پیشرفت، خواتین سمیت بنیادی حقوق کا احترام، دہشت گردی کو روکنا اور افغانوں کی انسانی اور اقتصادی حمایت اور مدد شامل تھی۔
پاکستانی نمائندے نے کہا کہ طالبان حکومت نے ان معاملات پر کوئی پیشرفت نہیں کی، جس کی بین الاقوامی برادری ان سے توقع کر رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری طالبان سے ان کی حکومت میں دوسروں کو سیاسی نمائندگی دینے کا مطالبہ کرتی رہی لیکن بدقسمتی سے اس سلسلے میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔
محمد صادق کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت نے خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق یقین دہانیاں کروائی تھیں لیکن اس معاملے پر پیشرفت کے بجائے معاملات مخالف سمت میں جا رہے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا صروری نہیں۔