افغانستان میں طالبان حکومت پر اندرونی اور بیرونی دباؤ بڑھ رہا ہے، لیکن ہر معاملے پر تردید کی پالیسی سے یہ بات واضح ہے کہ طالبان حکمران شاید معاملات کو اس طرح سنجیدگی سے نہیں لے رہے جس طرح لینا چاہیے۔
طالبان کو احساس ہو جانا چاہیے کہ اب وہ کوئی مسلح تنظیم نہیں بلکہ تقریباً چار کروڑ عوام پر حکومت کر رہے ہیں اور اپنے لوگوں کو مطمئن رکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھنا ہے۔ طالبان رہنماؤں کو سوچنا پڑے گا کہ 14 مہینے گزرنے کے بعد کسی ایک ملک نے بھی ان کی حکومت کو کیوں تسلیم نہیں کیا اور انہوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں؟
ایک اعلیٰ پاکستانی عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس سال کے شروع میں کئی ممالک نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق مشورے کیے تھے لیکن مارچ میں وعدے کے باوجود لڑکیوں کے ہائی سکول نہ کھولنے کے غیر متوقع اعلان کے بعد ان مشوروں کا سلسلہ رک گیا۔
طالبان نے اس وقت تک تعلیمی ادارے کھولنے سے متعلق کسی واضح پالیسی کا اعلان تک نہیں کیا ہے، تاہم وزیر تعلیم مولوی حبیب اللہ آغا نے 18 اکتوبر کومرکزی صوبے بامیان میں لڑکوں کے ایک سکول کے دورے کے دوران بتایا کہ ’وزارت تعلیم ہائی سکول کھولنے کے لیے ایک نظام بنا رہی ہے اور ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ سابق حکومتوں کی طرح ہم کوئی غیر منظم کام نہیں کر سکتے۔ اسلامی نظام ہمیں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘
ایسے بیانات کا سلسلہ پچھلے ایک سال سے جاری ہے لیکن ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا ہے جو لوگوں کے لیے اس لیے تشویش کا باعث ہے کہ ایک تعلیمی سال ضائع ہوچکا ہے اور معلوم نہیں کہ اور کتنا تعلیمی نقصان ہونے جا رہا ہے۔
لڑکیوں کے ہائی سکول نہ کھولنے کے فیصلے پر طالبان رہنماؤں میں کسی حد تک اختلافات بھی کوئی اچھا شگون نہیں۔ گذشتہ ماہ افغان نائب وزیر خارجہ شیر عباس ستانکزئی نے ایک اجلاس میں کہا تھا کہ مردوں اور خواتین کے لیے تعلیم فرض ہے۔
لیکن اسی نشست میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے وزیر نے کہا کہ عصری تعلیم فرض نہیں بلکہ مباح ہے اور امیر کا حکم ماننا فرض ہے۔
دونوں وزیروں کی تقاریر سرکاری ٹیلی ویژن سے براہ راست نشر کی گئی۔ پبلک فورم پر اس طرح کے بیانات کے بارے میں طالبان رہنماؤں کو سوچنا پڑے گا کہ وہ افغانوں اور دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟
اگر ایک جانب بین الاقوامی برادری کے طالبان کے ساتھ تعلقات میں بہتری نہیں آ رہی تو دوسری جانب طالبان کے مخالفین بھی سرگرم ہو رہے ہیں کیونکہ وہ بھی اندرونی اور بیرونی حالات کو دیکھ کر خاموشی توڑ رہے ہیں۔
سابق حکومتوں سے وابستہ کئی اہم شخصیات نے ایک نئی سیاسی تحریک کا آغاز کیا ہے جن میں سابق وزیر خارجہ حنیف اتمر اور سابق انٹیلی جنس سربراہ معصوم ستانکزئی بھی شامل ہیں۔ امن اور انصاف کے لیے افغان قومی تحریک کا اعلان ایک آن لائن اجلاس میں کیا گیا جس میں سابق حکومتی عہدیدار، اراکین پارلیمنٹ، علما، سکالروں، سول سوسائٹی، انسانی حقوق تنظیموں کے اراکین اور صحافیوں نے حصہ لیا۔
حنیف اتمر نے ٹوئٹر پر 200 سے زیادہ ارکان کی فہرست جاری کی ہے۔ حنیف اتمر نے پریس کانفرنس میں اس کا مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحریک سیاسی ہے اور اس فورم سے تبدیلی کی کوشش کرے گی۔ انہوں نے ایک وسیع البنیاد حکومت کو افغانستان میں پائیدارامن اور استحکام کا واحد راستہ قرار دیا۔
نئی تحریک کے ارکان نے افغانستان سے متعلق بین الاقوامی برادری کی تشویش کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر ایک جانب طالبان کے لیے اندرونی چیلنجوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب غیر ملکی دباؤ میں بھی کمی نہیں ہو رہی ہے۔
امریکہ نے 12 اکتوبر کو افغان طالبان رہنماؤں پر ویزوں کی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے افغانستان میں حکومت کی پالیسیاں ’خواتین اور لڑکیوں پر ظلم‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں طالبان کے موجودہ اور سابق اراکین، غیر حکومتی سکیورٹی اداروں کے ارکان اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا خواتین پر پابندیوں کی پالیسی میں کردار ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے دوسرے ممالک سے بھی اسی طرح کے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں صرف اس حکومت کو قانونی تصور کیا جائے گا جس میں تمام لوگوں کی نمائندگی ہو اور وہ اپنے لوگوں کی حقوق کا تحفظ کرسکتی ہو۔
طالبان نے امریکی فیصلے پر تنقید تو کی ہے لیکن جن دلائل کی بنیاد پر امریکہ نے یہ فیصلہ کیا ہے طالبان وزارت خارجہ کے بیان میں ان کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اگرچہ ابھی تک کسی اور ملک نے امریکہ کے فیصلے کی حمایت نہیں کی ہے لیکن امکان ہے کہ امریکا کا یہ فیصلہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ طالبان کے رابطوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ طالبان پالیسیوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طالبان حکومت اپنے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔
افغان دارالحکومت سے یہ خبر بھی آئی ہے کہ وزارت اعلیٰ تعلیم نے کابل یونیورسٹی کے ایک ہاسٹل سے کئی طالبات کو نکال دیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف طالبات نے منگل کو ایک مظاہرہ بھی کیا۔ ایک بیان میں طالبات کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری پر حملوں کے خلاف مظاہرے کرنے پر انہیں ہاسٹل سے نکالا گیا ہے۔
وزارت اعلیٰ تعلیم کا کہنا ہے کہ طالبات نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہاسٹل سے طالبات کے نکالنے کا فیصلہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ ہاسٹلوں میں دیگر علاقوں کے طلبہ و طالبات رہائش پذیر ہوتے ہیں اور ان کو نکالنے کا فیصلہ کسی طرح بھی منصفانہ نہیں ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے پر طالبان حکومت پہلے سے تنقید کا نشانہ بنی ہے اور اس طرح کے فیصلوں کو افغانستان کے اندر اور باہر غلط ہی سمجھا جائے گا۔
طالبان کے لیے 17 اکتوبر کو پنج شیر سے متعلق ایک دوسری خبر بھی کچھ اچھی نہیں۔
ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے گذشتہ ماہ پنج شیر میں 27 افراد کو حراست میں لینے کے بعد قتل کیا تھا۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ان ویڈیوز کی تحقیقات ابھی جاری ہیں جن میں طالبان کو کئی زیر حراست افراد پر فائرنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
پہلے طالبان کا موقف تھا کہ یہ افراد لڑائی کے دوران مارے گئے ہیں۔ لیکن ’افغان ویٹنس‘ کے نام سے ایک غیر حکومتی ادارے نے کہا ہے کہ اسناد اور شواہد کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ ثابت ہوا ہے کہ ان افراد کو گرفتار کرنے کے بعد گولی مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔ ایسی رپورٹس طالبان حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہے۔
شدت پسند تنظیموں کی افغانستان میں مبینہ موجودگی بھی دنیا کے لیے ایک اہم موضوع ہے اور ہر ایک علاقائی اور بین الاقوامی فورم پر اس کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک طالبان کے بیانات سے مطمئن نظر نہیں آتے۔
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے دہشت گردی کے خلاف ایک فورم کے حالیہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں کے ممکنہ خطرے کے مقابلے کے لیے مشترکہ اقدامات لیے جائیں گے۔ ایس سی او کے حکام کا اجلاس 14 اکتوبر کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہوا تھا، جس میں پاکستان اور چین کے اہلکاروں نے بھی شرکت کی تھی۔
بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے نائب قومی سلامتی کے مشیر داتاترے پدسالگیکر نے کہا ہے کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ افغان سرزمین سے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے متعلقہ حکام مشترکہ اقدامات اٹھائیں گے۔
اب یہ طالبان ہر منحصر ہے کہ دنیا کے ساتھ کیسے چلنا ہے؟ طالبان پالیسیوں کے باوجود دنیا افغانستان کو نظر انداز نہیں کر سکتی کیونکہ مسئلہ صرف طالبان کا نہیں بلکہ چار کروڑ عوام کا ہے جنہیں 40 سال جنگ کے خاتمے کے بعد امن اور استحکام کا ماحول میسر ہونا چاہیے۔ اس میں طالبان کا کردار سب سے اہم ہے۔
طالبان کو سوچنا پڑے گا کہ وہ عوام کی مشکلات کو حل کرنا چاہتے ہیں یا اس میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔