انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے جمعے کو نئی دہلی میں ’نو منی فار ٹیرر‘ کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ کچھ ممالک اپنی ’خارجہ پالیسی کے حصے کے طور پر دہشت گردی کی معاونت‘ کرتے ہیں اور اس کا حساب ان ہی سے لیا جانا چاہیے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب میں کہا: ’یہ بات سب کو معلوم ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں مختلف ذرائع سے رقوم حاصل کرتی ہیں۔ ادارے اور افراد جو دہشت گردوں سے ہمدردی کی کوشش کرتے ہیں، انہیں بھی تنہا کیا جانا چاہیے۔‘
اپنے پڑوسی ممالک میں سے کسی کا بھی نام لیے بغیر انڈین وزیراعظم نے کہا کہ پراکسی وار بھی خطرناک ہے اور دنیا کو ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف اکٹھا ہونا چاہیے۔
بقول مودی: ’عالمی تنظیموں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اگر کوئی جنگ نہیں ہو رہی تو اس کا مطلب ہے کہ ملک میں امن قائم ہے۔ پراکسی وار بھی خطرناک ہے اور جو ممالک دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں، اس کا حساب ان سے ہی لیا جانا چاہیے۔‘
Addressing the 'No Money for Terror' Ministerial Conference on Counter-Terrorism Financing. https://t.co/M7EhOCYIxS
— Narendra Modi (@narendramodi) November 18, 2022
اس سے قبل انڈیا کی وزارت داخلہ کے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ نئی دہلی میں جمعے سے شروع ہونے والی دو روزہ ’نو منی فار ٹیرر‘ (این ایم ایف ٹی) کانفرنس کی میزبانی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ مودی حکومت بین الاقوامی دہشت گردی کے مسئلے اور اس لعنت کے خلاف اپنی زیرو ٹالرنس پالیسی کو اہمیت دے رہی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اس کانفرنس کا افتتاح کیا، جس میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ بھی شریک ہوئے۔
اس کانفرنس میں 75 ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے نمائندے دو دن کے دوران طویل بحث کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں، تاہم پاکستان، جو انڈیا پر اکثر اس کے ملک میں دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کرتا ہے، اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوگا جبکہ افغانستان بھی اس کانفرنس میں موجود نہیں ہے۔
’نو منی فار ٹیرر‘ کیا ہے؟
این ایم ایف ٹی کا آغاز 2018 میں فرانسیسی حکومت کی جانب سے کیا گیا تھا، جس نے 1989 میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی بنیاد رکھی تھی، جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت سے نمٹنے میں سب سے آگے بین الاقوامی ادارہ ہے۔
ایف اے ٹی ایف کی طرح، جس نے پہلے صرف منی لانڈرنگ پر توجہ مرکوز کی تھی لیکن نائن الیون حملوں کے بعد دہشت گردوں کی مالی اعانت کے خاتمے کے ایجنڈے کو شامل کرنے کے لیے توسیع کی تھی، بالترتیب شام، عراق اور افغانستان میں علاقائی شکستوں کے باوجود داعش اور القاعدہ کی مسلسل سرگرمیوں کے باعث این ایم ایف ٹی کانفرنس کی ضرورت محسوس کی گئی۔
بین الاقوامی برادری کی طرف سے پیرس (2018) اور میلبرن (2019) میں ہونے والی پچھلی دو کانفرنسوں میں دہشت گردوں کی مالی معاونت سے نمٹنے پر بات چیت کو آگے بڑھایا گیا اور اب یہ کانفرنس انڈیا میں منعقد ہو رہی ہے۔
2018 کی کانفرنس
2018 کی کانفرنس کا عنوان ’داعش اور القاعدہ کی مالی اعانت کا مقابلہ‘ تھا۔
اس کانفرنس میں دہشت گردی کی مالی اعانت کو مکمل طور پر جرم قرار دینے پر اتفاق کیا گیا۔ ساتھ ہی اس کا مقصد نقد، غیر رسمی ترسیلات زر کے نظام (بشمول حوالہ جات)، پری پیڈ کارڈز، ادائیگیوں کے گمنام ذرائع اور ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کو فروغ دینے کے ساتھ منسلک خطرات سے نمٹنے کے لیے فریم ورک تیار کرکے، مالی بہاؤ کی شفافیت میں اضافہ تھا۔
اس کانفرنس میں نئے مالیاتی آلات کے غلط استعمال پر بھی تشویش کی گئی اور ’ایف اے ٹی ایف کے معیارات کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا گیا، جیسا کہ وہ کرپٹو اثاثوں پر لاگو ہوتے ہیں۔‘
اہم بات یہ ہے کہ کانفرنس میں ’غیر منافع بخش تنظیموں (این پی اوز) اور خیراتی فنڈز کا سراغ لگانے اور شفافیت‘ پر تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں سول سوسائٹی کی سرگرمیوں میں خلل ڈالے بغیر ’غیر منافع بخش تنظیموں سے متعلق ایف اے ٹی ایف کے معیارات پر فوری اور موثر عمل درآمد‘ کا مطالبہ کیا گیا۔
اجلاس میں اقوام متحدہ کی پابندیوں پر موثر انداز میں عمل درآمد، انٹیلی جنس شیئرنگ پر تعاون اور ایف اے ٹی ایف کے معیارات پر مکمل طور پر عمل نہ کرنے والے ممالک کی استعداد کار بڑھانے کی اہمیت کا بھی اعادہ کیا گیا۔
2019 کی کانفرنس
2019 میں منعقدہ کانفرنس کی میزبانی آسٹریلیا نے کی تھی، جس میں 65 وفود نے شرکت کی جن میں 23 وزرا اور 15 بین الاقوامی اداروں کے نمائندے شامل تھے۔
کانفرنس میں ’اغوا برائے تاوان اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی‘ جیسے ڈیجیٹل اور کرپٹو کرنسیوں، ذخیرہ شدہ ویلیو کارڈز، آن لائن ادائیگی کے نظام اور کراؤڈ فنڈنگ پلیٹ فارمز کو نئے چینلز کے طور پر شناخت کیا گیا، جس کے ذریعے دہشت گردی کی مالی اعانت کی جاسکتی ہے۔
اس نے ’دہشت گردوں کے ذریعے مالی نظام کے غلط استعمال کا پتہ لگانے اور اس کی روک تھام کے لیے نجی شعبے کے ذریعے ادا کردہ اہم کردار‘ کو تسلیم کیا اور این پی اوز کی نگرانی کی ضرورت پر توجہ دی گئی۔
2022 کانفرنس کا ایجنڈا
انڈیا کو 2020 میں اس کانفرنس کی میزبانی کرنی تھی لیکن وبائی مرض کرونا کی وجہ سے اسے ملتوی کردیا گیا تھا۔ این ایم ایف ٹی 2022 کے ایجنڈے میں دہشت گرد اداروں کے ذریعے ورچوئل اثاثوں اور کراؤڈ فنڈنگ پلیٹ فارمز کا استعمال، ڈارک ویب کا استعمال، دہشت گردی کی مالی اعانت اور جائز معاشی سرگرمیوں کے مابین روابط شامل ہیں۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق کانفرنس کے شرکا دہشت گردی کی مالی اعانت میں غیر منافع بخش تنظیموں اور غیر مالیاتی کاروباروں اور پیشوں کے غلط استعمال کے ساتھ ساتھ منی ٹرانسفر سروس سکیم اور حوالہ نیٹ ورکس کے ذریعے اس طرح کی مالی اعانت پر تبادلہ خیال کریں گے۔
انڈیا دہشت گردی کی مالی اعانت کے جرائم کی تحقیقات کے دوران تحقیقاتی ایجنسیوں کو درپیش چیلنجوں، مالیاتی انٹیلی جنس یونٹوں کے مابین معلومات کا تبادلے اور دہشت گردی کی مالی اعانت، منی لانڈرنگ کے خطرات سے نمٹنے میں حالیہ رجحانات پر بھی توجہ مرکوز کرے گا۔
اس مشاورت میں دہشت گردی کی مالی معاونت کے تمام پہلوؤں کے تکنیکی، قانونی، ریگولیٹری اور تعاون کے پہلوؤں پر بھی بات چیت شامل کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے جبکہ دہشت گردی کی مالی معاونت کے انسداد پر مرکوز دیگر اعلیٰ سطح کی سرکاری اور سیاسی بات چیت کے لیے بھی رفتار طے کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عالمی سطح پر ممالک کئی سالوں سے دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے متاثر ہیں۔
اسی طرح انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اسے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے دہشت گردی اور اس کی مالی امداد کی کئی شکلوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس لیے وہ اسی طرح سے متاثرہ ممالک کے درد اور صدمے کو سمجھتا ہے۔
امن پسند ممالک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف پائیدار تعاون کے لیے ایک پل بنانے میں مدد کے لیے، انڈیا اکتوبر میں دو عالمی پروگراموں کی میزبانی کر رہا تھا، جن میں دہلی میں انٹرپول کی سالانہ جنرل اسمبلی اور اقوام متحدہ کا خصوصی اجلاس اور ممبئی اور دہلی میں انسداد دہشت گردی کمیٹی کے اجلاس شامل تھے۔
حالیہ ’نو منی فار ٹیرر‘ کانفرنس میں شریک ممالک کی توجہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے عالمی رجحانات، دہشت گردی کے لیے فنڈز کے رسمی اور غیر رسمی ذرائع کے استعمال، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز اور متعلقہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ بین الاقوامی تعاون پر مرکوز ہو گی۔
(ایڈیٹنگ: ہارون رشید)