کچھ دہائیاں پہلے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں سینیما کی دھوم ہوتی تھی، جہاں سینیما گھر لوگوں کے لیے تفریح کا ذریعہ تھے، وہیں اس سے کافی لوگوں کا روزگار بھی جڑا ہوتا تھا۔
کراچی کے بعد سندھ کے دیگر شہروں کے لوگوں کے لیے حیدرآباد بھی کبھی سینیما گھروں کا مرکز ہوا کرتا تھا، جہاں 22 سینیما ہوا کرتے تھے۔
حیدرآباد سمیت آس پاس کے علاقوں کے رہائشی بڑی تعداد میں سینیما میں فلمیں دیکھنے آیا کرتے تھے۔ ان سینیماؤں میں بمبینو سینیما حیدرآباد کا واحد سینیما ہے جو ابھی تک فعال ہے اور یہ بھی شاید چند آنے والے دنوں میں بند ہونے کا عندیہ دے رہا ہے۔
حیدرآباد کا یہ آخری سینیما سندھ کے ایک سید خاندان نے قائم کیا تھا، جن کے حیدرآباد کے علاوہ سندھ کے دیگر شہروں میں بھی سینیما ہوتے تھے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بمبینو سینیما کے مالک سید الکرم شاہ نے بتایا کہ یہ سینیما 1978 میں ان کے والد نے حیدرآباد میں قائم کیا اور اس میں سب سے پہلی فلم ’عاشقی‘ کی نمائش کی گئی تھی اور اس کے بعد سینیما کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الکرم شاہ نے مزید بتایا کہ بمبینو سینیما سمیت حیدرآباد کے دیگر سینیما گھروں میں ایک ہفتہ قبل ہی ٹکٹ کی بکنگ ہوتی تھی اور سینیما ہال مکمل بھر جاتا تھا مگر پھر بھی لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہوتی تھیں۔
ان کے مطابق اب بمبینو سینیما میں 850 کے قریب لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے تو صرف 20 سے 25 لوگ مشکل سے آتے ہیں۔
انہوں نے سینیما کلچر ختم ہونے کا سبب یہ بتایا کہ اچھی اور معیاری فلمیں بننا بند ہوگئی ہیں اور جس کی وجہ سے لوگوں میں سینیما کا رحجان کم ہوتا گیا اور اس طرح سینیما زوال پذیر ہوتا گیا۔
’بمبینو سینیما میں اب اگر آپ داخل ہوں گے تو آپ کو ٹکٹ کاؤنٹر سمیت باہر انتظار کرنے کے لیے لگی ہوئی کرسیاں خالی اور اندر سینیما ہال مکمل ویران نظر آئے گا۔‘
سینیما کے مالک الکرم شاہ نے مایوس ہوکر مزید کہا کہ کافی دفعہ خیال آیا کہ سینیما کو بند کر دینا چاہیے لیکن انہوں نے سینیما بند نہیں کیا۔
’لیکن اب اس طرح اگر سلسلہ رہا تو معاشی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے حیدرآباد کا یہ واحد سینیما بھی بند کرنا پڑے گا۔‘
(ایڈیٹنگ: ندا مجاہد حسین)