پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے شاردہ میں پولیس اور مقامی مجسٹریٹ نے تصدیق کی ہے کہ 18 سالہ بارہویں جماعت کی طالبہ کے ساتھ ریپ کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار اور بے نظیر بھٹو کے نام پر قائم گیسٹ ہاؤس کو سیل کر دیا گیا ہے جہاں مبینہ طور پر طالبہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
شاردہ پولیس کے مطابق گذشتہ روز ایک قریبی گاؤں کے رہائشی نے پولیس کو درخواست دی تھی کہ ایک شخص نے اس کی 18 سالہ بیٹی کو اغوا کرکے قریبی گیسٹ ہاؤس میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کرلیا ہے اور اس کی معاونت کرنے والے نامعلوم ساتھیوں کی تلاش جاری ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے متاثرہ طالبہ کے والد نے بتایا: ’میری بیٹی اپنی ہم جماعتوں کے ساتھ شاردہ کالج سے پیدل گھر واپس آ رہی تھی کہ ایک جیپ ڈرائیور زبردستی اسے گاڑی میں ڈال کر گیسٹ ہاؤس کے تہہ خانے میں لے گیا اور زیادتی کے بعد اسی گاڑی میں ڈال کر گھر کے پاس پھینک دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
متاثرہ طالبہ کے والد نے الزام عائد کیا کہ اس واقعے میں گیسٹ ہاؤس کے ملازمین بھی ملوث ہیں اور گیسٹ ہاؤس کا مالک، جو بااثر سیاسی شخصیت ہے، ملزمان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
دوسری طرف پولیس ذرائع کے مطابق گیسٹ ہاؤس کے ملازمین کو شامل تفتیش کر لیا گیا ہے مگر ان میں سے کسی کے اس واقعے میں براہ راست ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد نہیں ملے۔ تاہم پولیس نے تصدیق کی ہے کہ گیسٹ ہاؤس کے دو ملازمین فرار ہیں اور وہی ممکنہ طور پر ملزم کے ساتھی ہو سکتے ہیں۔
تحصیلدار شاردہ یاسر بخاری نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گیسٹ ہاؤس کو وقتی طور پر سیل کر دیا گیا ہے اور متاثرہ طالبہ کا طبی معائنہ کروایا گیا ہے جبکہ رپورٹ کا انتظار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’رپورٹ موصول ہونے پر پتہ چلے گا کہ طالبہ کے ساتھ واقعی زیادتی ہوئی ہے یا نہیں۔‘
عینی شاہدین کے مطابق گذشتہ شام مشتعل افراد کی جانب سے گیسٹ ہاؤس کے گھیراؤ اور اسے جلانے کی کوشش کے بعد پولیس نے گیسٹ ہاؤس کو حصار میں لے لیا ہے اور وہاں موجود سیاحوں کو دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایس ایچ او شاردہ یعقوب مغل کے بقول پولیس مختلف پہلوؤں سے واقعے کی تفتیش کر رہی ہے اور ڈی ایس پی شاردہ کے علاوہ ایس پی نیلم خود تفتیشی عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ملزم مقامی جیپ ڈرائیور ہے اور اس سے قبل بھی منشیات فروشی اور خواتین کے ساتھ دست درازی جیسے الزامات کے تحت مختلف مقدمات میں گرفتار ہوتا رہا ہے، تاہم ہر بار سیاسی اثر و رسوخ کے باعث چھوٹ جاتا ہے۔
بےنظیر بھٹو کے نام پر قائم گیسٹ ہاؤس
وادی نیلم کے مشہور سیاحتی قصبے شاردہ کے جس گیسٹ ہاؤس میں یہ واقعہ پیش آیا وہ سیاسی رہنما اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر سردار قمر الزمان کی ملکیت ہے۔
ضلع باغ سے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے سردار قمرالزمان نے واقعے کو حقائق کے خلاف قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا: ’وقوعے میں نامزد ملزم کا میرے گیسٹ ہاؤس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وہ ڈرائیور ہے اور ساتھ والے گیسٹ ہاؤس میں سیاحوں کو لاتا، لے جاتا ہے ۔ ہمارے گیسٹ ہاؤس میں اس کا آنا جانا بھی نہیں۔‘
سردار قمرالزمان کے بقول یہ واقعہ کسی دوسری جگہ رونما ہوا ہے اور کاروباری رقابت کے باعث ان کے گیسٹ ہاؤس کو ملوث کرکے ساکھ تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’ہم تحقیقات میں پولیس کے ساتھ رضاکارانہ طور پر تعاون کریں گے اور اگر واقعی کسی نے زیادتی کی ہے تو اسے اس کے کیے کی سزا ملنی چاہیے۔‘
گیسٹ ہاؤس کے نام کے بارے میں انہوں نے کہا: ’جذباتی لگاؤ کے باعث میں نے گیسٹ ہاؤس کو اپنی شہید قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب کیا ہے۔ اس میں کسی قسم کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کی اجازت ہی نہیں۔‘
دوسری جانب شاردہ قصبے میں سول سوسائٹی اور تاجر تنظیموں نے واقعے کے خلاف بازار بند کرکے احتجاج کیا ہے اور ذمہ داران کا تعین کرکے انہیں سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
تاجر رہنما ضیا الرحمان قریشی کا کہنا تھا کہ علاقے میں سیاحت کے فروغ کے لیے ہم سب کوشاں ہیں مگر سیاحت کی آڑ میں منشیات فروشی اور خواتین کی عصمت دری کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ حکومت کو اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ اس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔